میری بیوی کو ان کے بھائی جھگڑا وغیرہ کر کے لے گئے، چھ ماہ سے وہ والدین کے گھر ہے، ان کے بھائی اس کو خود لے گئے تھے، اور پھر عدالت میں خلع کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے مقدمہ دائر کیا، اب میری بیوی اپنے والدین کے گھر ہے، کہہ رہی ہے کہ میں جو گھر میں بیٹھی ہوں اس کا تم مجھے خرچ دو۔ کیا مجھ پر بیوی کو خرچ دینا لازم ہے جب کہ وہ اپنے والدین کے گھر ہے میں نے کوئی طلاق نہیں دی، اور میں کورٹ میں حاضر بھی نہیں ہوا۔
واضح رہے کہ جو عورت اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر والدین کے گھر اپنا وقت گزارتی ہے شریعت کی اصلاح میں ایسی عورت (ناشزہ) نافرمان کہلاتی ہے اور ناشزہ کا حکم یہ ہے وہ نان نفقہ کی حق دار نہیں ہوتی۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل کی بیوی نےسائل کی اجازت کے بغیر جو عرصہ والدین کے گھر میں گزارا اس مدت کے نان نفقہ کی وہ حق دار نہیں ہے ، سائل پر اس کی ادائیگی لازم نہیں ہےجب تک سائل کے گھر نہیں آجاتی اس وقت تک بیوی کا خرچہ سائل پر لازم نہیں ہے۔
فتاوی عالمگیری میں ہے:
وإن نشزت فلا نفقة لها حتى تعود إلى منزله والناشزة هي الخارجة عن منزل زوجها المانعة نفسها منه
(الباب السابع عشر في النفقات، ص/545، ج/1، ط/رشیدیہ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144304100463
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن