بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی، بچوں کا نان و نفقہ ادا نہ کرنے کی وجہ سے بیوی کا علیحدگی کا مطالبہ کرنا


سوال

میری شادی کو 13 سال ہو چکے ہیں،  لیکن میرا شوہر مجھے کوئی جیب خرچ نہیں دیتا، پانچ سال ہو گئے، میں کپڑے کا کام کر رہی ہوں، اور اپنے بچوں کی تعلیم کا خرچہ خود اٹھاتی ہوں،  اپنی ضروریات بھی خود پوری  کرتی ہوں، میرے شوہر صرف گھر کا راشن اور بل جمع کرواتے ہیں اور جب بھی کسی ضرورت کے لئے پیسے مانگوں، تو آگے سے  کہتے ہیں کہ: ابھی نہیں ہیں اس بار خرچہ زیادہ ہو گیا ہے،  میں ان سب چیزوں سے بہت تنگ آچکی ہوں، نہ تو وہ میری ضروریات پوری کرتے ہیں اور نہ ہی  بچوں کی، میں اپنے شوہر سے علیحدگی چاہتی ہوں، میرے شوہر جانتے ہیں کہ میرے والدین اسٹرونگ ہیں اور میرا خرچ اٹھا لیتے ہیں، اور اسی وجہ سے وہ اپنے بیوی بچوں کا خرچ نہیں اٹھاتے، برائے مہربانی اس معاملے میں میری راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ نے  میاں بیوی کےایک دوسرے پر حقوق  مقرر کیے ہیں ،جن کی حسبِ استطاعت پاس داری  کرنا  ہرایک  پرشرعاً ضروری   ہے،میاں بیوی میں سےجو بھی ان میں کوتاہی کرے گاوہ گناہ گار ہوگا۔

 صورتِ مسئولہ میں سائلہ نے اپنے شوہر کے بارے میں جو کچھ  تفصیل لکھی ہے، اگر یہ تفصیل واقعۃ صحیح اور درست ہے ، تو یقینًا  شوہر اپنے ان افعال کی وجہ سے سخت گناہ گار ہے ، سائلہ کے شوہر کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں اور بیوی کا خیال رکھے، ان کے نان و نفقہ کا انتظام کرے، بیوی بچوں کی جائز ضروریات کو پورا کرے، شوہر کی کوتاہیوں کے باوجود  سائلہ کےلیے بہتر یہ ہے کہ اپنے شوہر سے علیحدگی چاہنے کے بجائےاپنے شوہر کے ساتھ مل کر باہمی رضامندی سے ان تمام مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں، اگر میاں بیوی کےلیے یہ ممکن نہ ہو، تو خاندان کے معزز، بااثر لوگوں کے ذریعے ان مسائل کوحل کرانے کی کوشش کرے۔

قرآن مجید میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:

"وَ اِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِهِمَا فَابْعَثُوْا حَكَمًا مِّنْ اَهْلِهٖ وَ حَكَمًا مِّنْ اَهْلِهَاۚ-اِنْ یُّرِیْدَاۤ اِصْلَاحًا یُّوَفِّقِ اللّٰهُ بَیْنَهُمَا-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا خَبِیْرًا."

(سورۃ النساء: 35)

ترجمہ:’’اور اگر تم اوپر والوں کو ان دونوں میاں بیوی میں کشاکش کا اندیشہ ہوتو تم لوگ ایک آدمی جو تصفیہ کرنے کی لیاقت رکھتاہو، مرد کے خاندان سے، اور ایک آدمی جو تصفیہ کرنے کا لیاقت رکھتاہو، عورت کے خاندان سے بھیجو، اگر ان دونوں آدمیوں کو اصلاح منظور ہوگی، تو اللہ تعالیٰ ان میاں بی بی کے درمیان اتفاق فرمادیں گے، بیشک اللہ تعالیٰ بڑے علم اور بڑے خبر والے ہیں۔‘‘

(از :بیان القرآن)

فتاوی شامی میں ہے:

''وأما الطلاق، فإن الأصل فيه الحظر بمعنى أنه محظور إلا لعارض يبيحه ، وهو معنى قولهم: الأصل فيه الحظر ، والإباحة للحاجة إلى الخلاص ، فإذا كان بلا سبب أصلاً لم يكن فيه حاجة إلى الخلاص، بل يكون حمقاً وسفاهة رأي ومجرد كفران النعمة وإخلاص الإيذاء بها وبأهلها وأولادها ، ولهذا قالوا: إن سببه الحاجة إلى الخلاص عند تباين الأخلاق وعروض البغضاء الموجبة عدم إقامة حدود الله تعالى ، فليست الحاجة مختصة بالكبر والريبة ، كما قيل ، بل هي أعم كما اختاره في الفتح فحيث تجرد عن الحاجة المبيحة له شرعاً يبقى على أصله من الحظر ، ولهذا قال تعالى : ﴿فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَيْهِنَّ سَبِيْلاً﴾ (النساء : 34) أي لا تطلبوا الفراق ، وعليه حديث: ’’ أبغض الحلال إلى الله عز وجل الطلاق‘‘. قال في الفتح: ويحمل لفظ المباح على ما أبيح في بعض الأوقات، أعني أوقات تحقق الحاجة المبيحة اھ.''

(کتاب الطلاق، ج: 3، ص: 228، ط: سعید)

(الحیلۃ الناجزۃ، ص: 72-73، ط: دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403102199

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں