بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوہ کا پینشن کی رقم بیٹی کو منتقل کرنا جائز ہے


سوال

 میں این جی او میں جاب کرتی تھی ایک سال پہلے، ابھی بھی میرے پاس کمیونٹی سے لوگوں کے مسلے مسائل آتے ہیں کہ ہماری فلاں کام میں مدد کر دیجیے. کچھ دن پہلے کسی نے ایک سوال کیا سوال یہ تھا کہ اگر شوہر ریٹائرڈ گورنمنٹ ملازم ہو اور اُن کی وفات ہو جاے تو کیا بیوہ کو پینشن ملے گی شوہر کی؟ ان کے چھ بچے ہیں. پانچ بچے شادی شدہ تھے جبکہ آخری بیٹی کی شادی شوہر کی وفات کے کچھ ماہ بعد ہو گئی تھی. اب سب شادی شدہ ہیں. تینوں بیٹے باپ کے ہی گھر میں اکٹھے رہتے ہیں اپنی اپنی فیملی کے ساتھ. لیکن اُن کے دو بیٹے بےروزگار ہیں اور باپ ہی اُن کا خرچہ اُٹھاتا تھا. ایک شادی شدہ بیٹی بھی باپ کے ہی گھر میں رہتی ہے،  جس کی شادی کو پانچ سال ہو گئے ہیں،  اس کے شوہر کو دو سال پہلے دل کا دورہ پڑا تھا جس کی وجہ سے وہ بہت بیمار رہنے لگا ہے اور کوئی بھی کام نہیں کر پاتا لہذا وہ بھی بےروزگار ہے جس کی وجہ سے اُس کے گھر والوں نے ان کی بیٹی کو باپ کے گھر بھیج دیا کہ ہم تمھارا خرچہ نہیں اُٹھا سکتے. اب وہ بیٹی اپنی ماں کے ساتھ ہی رہتی ہے اور بوڑھی ماں کی دیکھ بھال بھی وہی کرتی ہے، اُس کا شوہر کبھی کبھی ملنے آ جاتا ہے،  ان کے ہاں کوئی اولاد نہیں ہے. سوال  یہ ہے کہ کیا باپ کی پینشن اُس بیٹی کو مل سکتی ہے؟ جو شادی شدہ ہونے کے باوجود بھی باپ کے ہی گھر پر رہتی ہے کیونکہ اُس کا اپنا کوئی گھر نہیں ہے اس کے علاوہ اور شوہر میں اتنی سکت نہیں کہ وہ کوئی جاب کر سکے. ماں اپنی زندگی میں ہی شوہر کی پینشن بیٹی کے نام پر ٹرانسفر کرنا چاہتی ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر حکومت کے قانون کے مطابق باپ کی پینشن اس کی بیٹی کو مل سکتی  ہے تو پینشن کو بیٹی کے نام پر ٹرانسفر کرنا جائز ہوگا ورنہ نہیں، دوسری صورت یہ ہے کہ حکومت کو درخواست  دے اگر حکومت قبول کرلیتی ہے تو ٹھیک ہے ورنہ نہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(هي) لغة: التفضل على الغير ولو غير مال. وشرعا: (تمليك العين مجانا) أي بلا عوض لا أن عدم العوض شرط فيه ۔۔۔۔۔۔۔ مندوبة وقبولها سنة قال - صلى الله عليه وسلم - «تهادوا تحابوا» ."

(كتاب الهبة، ج:5، ص:687، ط:سعيد)

بدائع الصنائع میں ہے:

"أما أصل الحكم فهو ثبوت الملك للموهوب له في الموهوب من غير عوض لأن الهبة تمليك العين من غير عوض فكان حكمها ملك الموهوب من غير عوض."

(کتاب الہبة، فصل في حكم الهبة، ج:6، ص:127، ط:سعيد)

امداد الفتاوی میں ہے:

"چوں کہ میراث مملوکہ اموال میں جاری ہوتی ہے اور یہ وظیفہ محض تبرع واحسانِ سرکار ہے، بدون قبضہ کے مملوک نہیں ہوتا، لہذا آئندہ جو وظیفہ ملے گا اس میں میراث جاری نہیں ہوگی، سرکار کو اختیار ہے جس طرح چاہیں تقسیم کردے"۔

(کتاب الفرائض، عنوان: عدم جریان میراث در وظیفہ سرکاری تنخواہ،ج4،ص343، ط: دارالعلوم)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503102946

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں