میری بہن کی شادی ہوئی اور جوائنٹ فیملی میں رہتے تھے، اب لڑکی مطالبہ کر رہی ہے کہ الگ گھر میں رہوں گی، ساس کی وجہ سے میرا شوہر بہت مارتا ہےاور ساس سے لڑائی رہتی ہے، کیا یہ مطالبہ درست ہے؟ واضح رہے کہ نکاح کے بعد رخصتی سے پہلےلڑکی نے اپنے شوہر سے کہا تھاالگ رہنے کااور شوہر نے اس پر حامی بھی بھری تھی۔
واضح رہے کہ اگر بیوی الگ رہنا چاہتی ہو تو شوہر کی شرعی و اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی بیوی کو ایسی رہائش فراہم کرے جس میں وہ خود مختار ہو، کسی اور کا عمل دخل نہ ہو، تاہم شریعتِ مطہرہ نے شوہر کی حیثیت کی رعایت رکھی ہے کہ اپنی حیثیت سے زیادہ کا مکلف نہیں بنایا ہے، اگرشوہراتنی استطاعت نہیں رکھتا کہ مکمل طورپر جدا گھر دے یا شوہر استطاعت رکھتاہے لیکن بیوی متوسط یا عام خاندان سے تعلق رکھتی ہے تو کم از کم ایک ایسا جدا مستقل کمرہ دینا ہوگا جس کا بیت الخلا، باورچی خانہ (کچن) الگ ہو اورعورت کی ضروریات کوکافی ہوجائے ،جس میں وہ اپنامال واسباب تالالگاکررکھ سکے، کسی اورکی اس میں دخل اندازی نہ ہواوراگرشوہرزیادہ مال دار ہے اور اس کی استطاعت ہے کہ وہ مستقل طورپر علیحدہ گھر کا انتظام کرے اور بیوی بھی شریف اور اعلی خاندان سے تعلق رکھتی ہے تو بیوی کو الگ گھر کے مطالبے کا حق ہوگا، لیکن شوہر کی حیثیت کو مدنظر رکھ کر درمیانے درجے کے گھر کا انتظام لازم ہوگا۔
لہذا صورت مسئولہ میں شوہر پر شرعاً لازم ہے کہ وہ بیوی کے لئے اپنی حیثیت کے مطابق الگ رہائش کا انتظام کرے، بیوی کا الگ رہائش کا مطالبہ کرنا شرعا درست ہے۔
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"تجب السكنى لها عليه في بيت خال عن أهله وأهلها إلا أن تختار ذلك. "
( کتاب الطلاق ، الباب السابع عشر في النفقات ، ج:1، ص:556، ط: المطبعة الكبرى الأميرية ببولاق مصر)
بدائع الصنائع میں ہے:
"ولو أراد الزوج أن يسكنها مع ضرتها أو مع أحمائها كأم الزوج وأخته وبنته من غيرها وأقاربه فأبت ذلك؛ عليه أن يسكنها في منزل مفرد؛ لأنهن ربما يؤذينها ويضررن بها في المساكنة وإباؤها دليل الأذى والضرر ولأنه يحتاج إلى أن يجامعها ويعاشرها في أي وقت يتفق ولا يمكنه ذلك إذا كان معهما ثالث حتى لو كان في الدار بيوت ففرغ لها بيتا وجعل لبيتها غلقا على حدة قالوا: إنها ليس لها أن تطالبه ببيت آخر اھ."
(كتاب النفقة، ج:4، ص:23، ط: دار الکتاب الاسلامی)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144601101259
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن