بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 رمضان 1446ھ 28 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

بیوی کو تم آزاد ہو کہنے کا حکم


سوال

ایک مرتبہ میرا اور میرے شوہر کے درمیان بچوں کے مستقبل اور ان کی تعلیم کے بارے میں کچھ باتیں ہوئیں،لیکن یہ سب کچھ نارمل حالت میں ہوا،اس دوران میرے شوہر نے ایک بات کہی کہ میں اپنے بچوں کے فیصلے خود کروں گا،تو یہ بات مجھے اچھی نہیں لگی کہ میں ان بچوں کی ماں ہوں،اور ان کے بارے میں مجھ سے نہیں پوچھیں گے،اس دوران میں شوہر سے شکوے کرنے لگی تو کہنے لگے مشورہ لوں گا، لیکن مرضی میری ہو گی، یہ گفتگو نارمل حالت میں تھی اور پھر بات ختم ہوگئی،اس کے بعدمیں نے ناشتہ بنایا،  سب نے ناشتہ کیا،ناشتے کے بعد وہ اپنے کام میں مصروف ہو گئے،اس کے بعد پھر بچی کو بھیجا کہ والدہ سے کھانے کا معلوم کرو،تو میں نے کہا کہ ناشتہ لیٹ کیا ہے، اس وجہ سے میں نے کھانا نہیں بنایا ہے،شام کا جلدی کھا لیں گے،چھٹی والےدن ہمارایہی معمول ہوتا ہے،پھر بھی انہوں نے کہا کچھ بنالو، تو میں کھانے کا انتظام کرنے لگی،جب کھانا تیار ہو چکاتو میں نے کہا برتن دھو لیتی ہوں، پھر کھانا کھا لوں گی،اس دوران میرے شوہر واش روم یا مسجد سے کچن میں آئے اور کہنے لگے تم نے کھانا کیوں نہیں بنایا، اس وقت ان کو لگا کہ میں ناراض ہوں اور کھانے پر نہیں آرہی، کہنے لگے کہ تم یہ سب کیوں کرتی ہوں،ایسا کرکے تم خود ہی دور ہو رہی ہو، تم میرے لیے صرف بچوں کی ماں ہو،  یہ سب باتیں بہت دھیمے انداز میں کیں، جیسے ناراضگی میں ایک دوسرے سے شکوہ کرتے ہیں،اس کے بعد میری کسی بات پر ان کو غصہ آگیا تو کہنے لگے کہ  "تم آزاد ہو"پھر چُپ ہو گئے ، پھر کہا کہ   "تم آزاد ہو"، تین چار مرتبہ یہ جملہ بولا،  پھر کہنے لگے کہ دفع ہو جا، گھر والوں کو بتا دو تم آزاد ہو۔

اس واقعہ کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ انہوں نے کچھ غلط تو نہیں کہا،تو میں نے موبائل میں تلاش کیا،پھر شوہر سے پوچھا آپ نے جو کہا اس سے نیت کیا تھی؟تو کہنے لگے اس سے میری نیت ہر گز طلاق کی نہیں تھی،میں اس چیز کو سمجھتا ہوں،میرا مقصد صرف تمہیں چڑچڑانا اور پریشان کرنا(irritate)تھا۔

اس صورتِ حال میں ہماری راہ نمائی فرمائیں کہ اس سے طلاق تو واقع نہیں ہوئی ہے؟

جواب

واضح رہے کہ لفظ ”آزاد“ طلاق کے لیے استعمال ہوتا ہے اور اس سے دی جانے والی طلاق صریح بائن ہوتی ہے، اور کئی مرتبہ  کہنے کی صورت میں بھی ایک ہی طلاق بائن واقع ہوتی ہے اور نکاح ختم ہوجاتا ہے اور دوبارہ ساتھ رہنے کے لئے از سرِ نو نکاح کرنا پڑتا ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں جب سائلہ کے شوہرنے سائلہ کوکہا کہ "تم آزاد ہو"تو اس جملہ سے  سائلہ پرایک طلاق بائن واقع ہو گئی ہے،اگر چہ شوہر یہ کہے کہ میری نیت طلاق کی نہیں تھی،اور نکاح ختم ہو چکا ہے،اب شوہر رجوع نہیں کر سکتا،عدت(اگر حمل نہ ہو تو پوری تین ماہ واریاں اگر ماہواری آتی ہو،اور اگر  ماہواری نہ آتی ہوتو تین ماہ،اور اگر حمل ہو تو بچے کی پیدائش تک) ختم ہونے کے بعدسائلہ جس سے نکاح کرنا چاہیں کر سکتی ہیں،البتہ اگر میاں بیوی باہمی رضامندی سے دوبارہ نکاح کرنا چاہیں تو  از سرِ نونئے مہر کے ساتھ دو گواہوں کی موجودگی میں دوبارہ نکاح کر سکتے ہیں،اس صورت میں شوہر کو آئندہ صرف دو طلاق کا اختیار ہوگابشرط یہ کہ اس سے پہلے کوئی طلاق نہ دی ہو۔

فتاوی شامی میں ہے:

"بخلاف فارسية ‌قوله ‌سرحتك وهو " رهاء كردم " لأنه صار صريحا في العرف على ما صرح به نجم الزاهدي الخوارزمي في شرح القدوري اهـ وقد صرح البزازي أولا بأن: حلال الله علي حرام أو الفارسية لا يحتاج إلى نية، حيث قال: ولو قال حلال " أيزدبروي " أو حلال الله عليه حراملا حاجة إلى النية، وهو الصحيح المفتى به للعرفوأنه يقع به البائن لأنه المتعارف ثم فرق بينه وبين سرحتك فإن سرحتك كناية لكنه في عرف الفرس غلب استعماله في الصريح فإذا قال " رهاكردم " أي سرحتك يقع به الرجعي مع أن أصله كناية أيضا،وما ذاك إلا لأنه غلب في عرف الفرس استعماله في الطلاق وقد مر أن الصريح ما لم يستعمل إلا في الطلاق من أي لغة كانت، لكن لما غلب استعمال حلال الله في البائن عند العرب والفرس وقع به البائن ولولا ذلك لوقع به الرجعي".

(کتاب الطلاق، باب الکنایات، ج:3، ص:299، ط:ایچ ایم سعید)

وفیه أیضًا:

"(قوله لا يلحق البائن البائن) المراد بالبائن الذي لا يلحق هو ما كان بلفظ الكناية لأنه هو الذي ليس ظاهرا في إنشاء الطلاق كذا في الفتح، وقيد بقوله الذي لا يلحق إشارة إلى أن البائن الموقع أولا أعم من كونه بلفظ الكناية أو بلفظ الصريح المفيد للبينونة كالطلاق على مال۔۔۔".

(کتاب الطلاق، باب الکنایات، ج:3، ص:308، ط:ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144607100793

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں