بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیٹے کے انتقال کی صورت میں ترکہ میں والد کا کتنا حصہ ہے؟


سوال

 میرے بڑے بھائی کا انتقال سال 1997 میں ہوگیا تھا میرے بھائی کو میرے والد نے اپنی زندگی میں 7.5 ایکڑ زمین ہبہ کردی تھی اور زمین کا انتقال بھی کر دیا تھا میرے بڑے بھائی فوت ہوئے تھے تو اس وقت میرے والد صاحب زندہ تھے ان کا انتقال سال 2007 میں ہوا تھااور  میرے  والد کی دو بیویاں تھیں لیکن ان کا انتقال میرے بھائی کی وفات سے پہلے ہی ہو گیا تھا،  میرے بھائی کی اولاد 3 بیٹے اور 2 بیٹیاں ایک بیوہ جو کہ سب حیات ہیں اس کے علاہ میرے بھائی کے انتقال کے وقت چار بھائی زندہ تھے اب ایک مسلہ در پیش ہے کہ میرے بھائی کی وراثت جو انہوں نے چھوڑی تھی اس وقت میرے والد زندہ تھے اب آیا میرے والد کا بیٹے کی وراثت میں حصہ بنتا ہے کہ نہیں ؛ کیوں کہ زمین تو میرے والد نے بیٹے کو دی تھی اس کا کیا حل ہے؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں سائل کے والد صاحب نے  اپنے بڑے بیٹے کو ساڑھے سات  ایکڑ زمین مکمل قبضہ وتصرف کے ساتھ ہبہ کر دی تھی ،اور بیٹے  نے اس پر قبضہ کرلیا تھا  تھا تو اس صورت میں  مذکورہ زمین والد کی ملکیت سے نکل کر بیٹے کی ملکیت میں چلی گئی تھی اور وہ زمین بیٹے کی ملکیت  ہو گئی تھی  اور ہبہ تام ہو گیا تھا،  لہذا بیٹے (سائل کے بڑے بھائی )کے انتقال کے وقت والد موجود تھے تو    بیٹے کی جائیداد میں  چھٹا  حصہ والد  کا بھی تھا  ، لہذا   بڑے بھائی  کے ترکہ کی تقسیم  میں  والد  کے چھٹے  حصے  کو  سائل کے بہن بھائیوں میں تقسیم کیا جائے گا ۔

اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

"وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِن كَانَ لَهُ وَلَدٌ."  ﴿النساء: ١١﴾

 تنوير الابصار مع الدرالمختار ميں هے :

"(‌وتتم) ‌الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلا لملك الواهب لا مشغولا به) والأصل أن الموهوب إن مشغولا بملك الواهب منع تمامها."

(کتاب الھبۃ،690/5،سعید)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144407102394

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں