بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیٹے کا والد کو دیے ہوئے قرض سے زیادہ کامطالبہ کرنا


سوال

میرے والد صاحب کا گھر چوالیس  لاکھ  میں بک گیاہے، اس گھر پر میں نے ساڑھے تین لاکھ روپے لگائے اور والد صاحب نے کہا تھا کہ تم اس میں اپنے پیسے لگاؤ  بعد میں   اسٹام پیپر     میں لکھوادیں  گے، وہ میں آپ  کو اد ا کروں گا،لیکن  بعد میں ہم نے نہیں لکھوائے، اور اس کے علاوہ میں نے  ساڑھےتین لاکھ روپے قرضہ ادا کیا جو میری بہن کی شادی میں والد صاحب  پر قرضے آئے تھےاور یہ بھی میں نے والد صاحب کے کہنے پر ادا کیے اور انہوں نے کہا کہ بعد میں میں آپ کو  دے دوں گا،  یہ ٹوٹل سات لاکھ روپے ہوگئے، اب والد صاحب مجھے گھر سے الگ کر رہے ہیں اور مجھے   صرف چار لاکھ پچہتر  ہزار روپے دئیے ہیں،میرے ذمہ اور ڈیڑھ، دو لاکھ کا قرضہ ہے وہ ادا کرنا ہے اور اسی طرح  میرے ذمہ ایک لاکھ بجلی کا بل ہے وہ بھی ادا کرنا ہے، بچے گا  دو لاکھ پچیس ہزار  روپے ، اب سوال یہ ہے کہ : اس گھر کے بکنے کے بعد میرا اس میں کتنا حصہ ہے؟ میں نے کل سات لاکھ روپے خر چ کیا گھر پر اور بہن کی شادی کے قرضے ادا کرنے میں، لیکن مجھے یہ سات پورا نہیں  ملا ،تو شرعاً اس گھر میں میرا کتنا حصہ  بنتا ہے؟

جواب

صور ت مسئولہ میں سائل نے جو  مذکورہ رقم (ساڑھے تین لاکھ  گھر بنانے کے لیے اور ساڑھے تین لاکھ والد  کے قرضہ ادا کرنے کےلیے )  والد کے حکم پر ان کی طرف سے ادا کی تو یہ رقم سائل کے والد کے ذمہ سائل کا قرض ہے لہذاصرف وہی مذکورہ رقم ہی   سائل کو ملے گی، اس سے زیادہ  نہیں ؛ باقی گھر   فروخت کرنے کے بعد اس کی قیمت چوالیس لاکھ میں سائل کا کوئی حق نہیں ؛اس لیے کہ وہ والد  ہی کی  ملکیت ہے ، سائل  کا اس میں کوئی حق نہیں اور مذکورہ رقم سے زیاد کا مطالبہ کرنا درست نہیں،اب جب والد نے سائل کو چار   لاکھ پچھتر ہزار روپے ادا کر دیئے ہیں ،تو والد کے ذمہ صرف 225000 روپے  سائل کو ادا کرنا باقی ہیں ۔

بدائع الصنائع ميں ہے:

"أما حكم القرض فهو ثبوت الملك للمستقرض في المقرض للحال، وثبوت مثله في ذمة المستقرض للمقرض للحال، وهذا جواب ظاهر الرواية."

(کتاب القرض،فصل في حكم القرض،ج:7،ص:396،ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"إن ‌الديون ‌تقضى بأمثالها أي إذا دفع الدين إلى دائنه ثبت للمديون بذمة دائنه مثل ما للدائن بذمة المديون."

(‌‌كتاب الأيمان،مطلب في قولهم ‌الديون ‌تقضى بأمثالها،ج:3،ص:789،ط : سعيد )

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144401100359

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں