بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والدہ کی وفات پر بیٹیوں کا گھر سے باہر نہ نکلنا


سوال

والدہ کی وفات کے بعد بیٹیاں کتنے دن تک گھر سے نہ نکلیں؟

جواب

بیٹیاں والدہ کی وفات پر ضروری کام کے لیے گھر سے باہر  جا  سکتی  ہیں، بیٹیوں کو والدہ کی وفات  کے بعد ضروری کام کے لیے گھر سے  باہر جانا منع نہیں ہے،تاہم شرعی اعتبار سے کسی کے انتقال پر رنج و غم کی تو اجازت ہے، لیکن نوحہ و ماتم وغیرہ کرنا  جائز نہیں  ہے،اور کسی رشتہ دار کی موت پر تین دن سوگ منانا جائز ہے، اس سے زیادہ کی اجازت نہیں ہے، البتہ بیوہ عورت  کے لیے اپنے شوہر کے انتقال پر چار  ماہ  دس دن  تک گھر سے باہر بلا شرعي عذرجانا درست نہیں۔

فتای شامی  میں ہے:

"الحداد وهو لغة كما في القاموس: ترك الزينة للعدة. وشرعا ترك الزينة ونحوها لمعتدة بائن، أو موت،(تحد) بضم الحاء وكسرها كما مر (مكلفة مسلمة - ولو أمة - منكوحة) بنكاح صحيح ودخل بها."

(كتاب الطلاق، باب العدة،‌‌فصل في ‌الحداد  ج:3، ص:530  ط:دار الفكر)

فتای شامی  میں ہے:

"(بترك الزينة) بحلي أو حرير، أو امتشاط بضيق الأسنان (والطيب) وإن لم يكن لها كسب إلا فيه (والدهن) ولو بلا طيب كزيت خالص (والكحل والحناء ولبس المعصفر والمزعفر) ومصبوغ بمغرة، أو ورس (إلا بعذر)."

(كتاب الطلاق، باب العدة،‌‌فصل في ‌الحداد، ج:3، ص،531، ط:دار الفكر)

فتای شامی  میں ہے:

"(قوله: ويباح الحداد إلخ) أي حديث الصحيح: «لايحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر أن تحد فوق ثلاث إلا على زوجها فإنها تحد أربعة أشهر وعشرًا» فدل على حمله في الثلاث دون ما فوقها."

(كتاب الطلاق، باب العدة،‌‌فصل في ‌الحداد، ج:3، ص،533، ط:دار الفكر)

فقط اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408101869

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں