بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک بیوہ، دو بیٹوں اور پانچ بیٹیوں کے درمیان میراث تقسیم کرنے کا شرعی طریقہ / بیٹوں کا والدہ کے نام فلیٹ خریدنے کا حکم


سوال

1-ہم پانچ بہنیں اور دو بھائی ہیں، اور ایک ہماری والدہ ہے، والد مرحوم کے نام ایک گھر تھا، جو چار کروڑ پندرہ لاکھ کا بکا ہے، اب ورثاء میں اس کی تقسیم کیسے ہوگی؟

2-ہم ایک بھائی کو ان کا حصہ دینا چاہتے ہیں، اور پانچ بہنیں اور ایک بھائی والدہ کے نام سے ایک فلیٹ خریدنا چاہتے ہیں، تو اس کی لکھت کا کیا طریقہ ہونا چاہیے؟

3-نیز یہ بھی بتائیں کہ والدہ کی جائیداد میں سے ان کے انتقال کے بعد ہم ورثاء کو کتنا کتنا ملے گا؟ اور اس کی لکھت کا کیا طریقہ ہونا چاہیے؟

جواب

1-صورتِ مسئولہ میں سائل کے والد مرحوم کی میراث ان کے ورثاء میں تقسیم کرنے کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے مرحوم کے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین کے اخراجات نکالے جائیں گے، اس کے بعد اگر ان کے ذمہ کسی کا قرض ہو تو اس کو باقی کل ترکہ میں سے ادا کرنے کے بعد اگر اس نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اس کو باقی کل ترکہ کے ایک تہائی میں سے نافذ کرنے کے بعد باقی کل ترکہ  منقولہ و غیر منقولہ کو 72 حصوں میں تقسیم کرکے 9 حصے مرحوم کی بیوہ کو، 14  حصے ہر ایک بیٹے کو اور 7 حصے ہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔

میراث کی تقسیم کی صورت یہ ہے:

میت: سائل کے والد، مسئلہ: 72/8

بیوہبیٹابیٹابیٹیبیٹیبیٹیبیٹیبیٹی
17
9141477777

یعنی مثلا 100 روپے میں سے 12.5 روپے مرحوم کی بیوہ کو، 19.444 روپے ان کے ہر ایک بیٹے کو اور 9.722 روپے ان کی ہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔

2-جو بھائی بہنیں والدہ کے نام فلیٹ خریدنا چاہتے ہیں ان کو چاہیے کہ  پہلے میراث تقسیم کرکے ہر ایک وارث کو اس کا حصہ دیا جائے، پھر اگر وہ والد ہ کے نام فلیٹ خرید کر ان کو گفٹ کرنا چاہتے ہیں تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ فلیٹ خرید کر والدہ کے نام کرائیں، اور نام کرانے کے ساتھ ساتھ ان کو مالکانہ حقوق کے ساتھ قبضہ بھی دے دیں، اس طرح والدہ اس مکان کی مالک بن جائے گی، اور مکان ان کے انتقال کے بعد ان کے تمام ورثاء میں شرعی طریقہ کار کے مطابق تقسیم ہوگا، اور اگر مذکورہ بہن بھائی مکان گفٹ نہیں کرنا چاہتے، بلکہ محض ان کے نام کرکے اپنی ملکیت میں بر قرار رکھنا چاہتے ہیں تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ ہر بہن بھائی متعین رقم جمع کرکے والدہ کے نام فلیٹ خرید لیں، جو سب کی مشترکہ ملکیت ہو، اور ہر ایک اس میں اپنی ادا کرددہ رقم کے بقدر شریک ہو، مکان محض انتظامی نوعیت سے والدہ کے نام ہو، اس کے مالک خریدنے والے بیٹے اور بیٹیاں ہوں، نیز اگر والدہ بھی اس میں اپنا حصہ ڈالنا چاہتی ہے تو وہ بھی مکان میں اپنی ادا کردہ رقم کے بقدر شریک ہوگی۔

بہتر ہے کہ ان سارے معاملات کی تفصیلات اسٹامپ پیپر پر لکھ کر اس پر گواہ بھی بنائے جائیں، اور گواہ سمیت سب شرکاء کے دستخط بھی ا س پر ثبت کیے جائیں؛ تاکہ بعد میں کسی قسم کا نزاع پیدا نہ ہو۔

مبسوط سرخسی میں ہے:

"ثم الملك لا يثبت في الهبة بالعقد قبل القبض - عندنا .... وحجتنا في ذلك ما روي عن النبي - صلى الله عليه وسلم -: لا تجوز الهبة إلا مقبوضة، معناه: لا يثبت الحكم، وهو الملك؛ إذ الجواز ثابت قبل القبض بالاتفاق."

(کتاب الهبة،ج:12، ص:48 ،ط: دارالمعرفة بیروت)

3-باقی والدہ کی میراث کی تقسیم زندگی میں نہیں بتائی جاتی، ان کے انتقال کے بعد جو ورثاء حیات ہوں اس وقت کسی دار الافتاء سے اس سے متعلق شرعی حکم معلوم کیا جائے۔

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144406101066

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں