بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیٹی کی شادی کے لیے بنائے گئے زیورات اور کرایہ پر دیئے ہوئے مکان کی زکوۃ کا حکم


سوال

1:  اگر کوئی شخص بیٹی کی شادی کے غرض سے کوئی سونا یا چاندی کے ہار وغیرہ بنا کر رکھے تو کیا ایسے مال پر زکوٰۃ واجب ہے ؟

2:  اسی طرح اگر ایک گھراقساط پر  خریدا ہو  اور بچوں کے اسکول سے دور ہونے کی وجہ سے وہ گھر آگے کسی اور کو کرایہ پر دے دیا ہو اور اس سے آنے والے کرایہ میں مزید کچھ اضافہ کرکے اس گھر کی قسطیں بینک کو جمع کروا رہے ہوں اور مزید اس سے کوئی اضافی اِنکم نہیں ہورہی ہو تو کیا ایسے گھر پر بھی زکوٰۃ واجب ہے ؟ 

جواب

1: اگر کوئی شخص اپنی بیٹی کو اس کی شادی میں دینے کی غرض سے کوئی سونا یا چاندی کے زیورات بناکر رکھے تو اگر وہ بیٹی بالغہ ہو اور اس کےقبضہ میں نہ دیئے ہوں اور وہ زیورات نصاب کے بقدر ہوں یا ان زیورات کے علاوہ اس شخص کے پاس دیگر قابلِ زکوۃ اموال ہوں تو اس صورت میں سال گزرنے پر مذکورہ شخص پر اس کی ڈھائی فیصد  زکوۃ لازم ہوگی اوراگر  اس شخص نے وہ زیورات اپنی بالغہ بیٹی کے قبضہ میں دے دیئے ہوں اور وہ نصاب کے مالک ہے تو بیٹی سالانہ اس کی زکوۃ ادا کرے گی اور اگر وہ پہلے سے نصاب کے مالک نہیں ،اس سونا کی وجہ سے نصا ب کے مالک ہوئی ہے یا دیگر قابلِ زکوۃاموال کے ساتھ ملا کر نصاب کے مالک ہوئی ہے تو اس صورت میں قبضہ کے بعد ایک سال مکمل ہونے پر ڈھائی فیصد زکوۃ ادا کرنا لازم ہوگا اور اگر والد بیٹی سے اجازت لے کر خود زکوۃ ادا کردے گا تو بھی زکوۃ ادا ہوجائے گی اور اگر وہ لڑکی نابالغہ ہو تو اس پر زکوۃ لازم نہیں ہوگی اور باپ پر بھی لازم نہیں ہوگی۔

2:  صورتِ مسئولہ میں اگر  مذکورہ گھر رہنے کی نیت سے لیا ہو ،تو اس کی مالیت پر زکوۃ لازم نہیں  اور  اس سے حاصل ہونے والا کرایہ جب  تک اس گھر کی قسطوں میں خرچ ہورہاہےتو اس کرایہ پر بھی  زکوۃ لازم نہیں اور اگر تجارت کی نیت سے لیا ہے تو جب تک کرایہ پر ہے اس گھر کی قیمت پر زکوۃ لازم نہیں۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(ومنها العقل والبلوغ) فليس الزكاة على صبي ومجنون إذا وجد منه الجنون في السنة كلها...(ومنها كون المال نصابا) فلا تجب في أقل منه..ومنها الملك التام وهو ما اجتمع فيه الملك واليد وأما إذا وجد الملك دون اليد كالصداق قبل القبض أو وجد اليد دون الملك كملك المكاتب والمديون لا تجب فيه الزكاة كذا في السراج الوهاج."

(كتاب الزكاة، الباب الأول في تفسير الزكاةو صفتها و شرائطها،172/1،ط: رشيدية)

فتاوی قاضی خان میں ہے:

" ولو اشتري الرجل دارا أو عبدا للتجارة ،ثم أجره يخرج من أن يكون للتجارة؛ لأنه لما آجر فقد قصد المنفعة، ولو اشتري قدورا من صفر يمسكها أو يؤاجرها لا تجب فيها الزكاة كما لا تجب في بيوت الغلة."

(كتاب الزكاة،فصل: في مال التجارة ،221/1،ط:دار الكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144408100219

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں