بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بٹ کوائن سے متعلق چند مغالطے اور جواب


سوال

1)کرپٹو کرنسی کے حوالے سے کیا حکم ہے؟

2)یہ بات درست ہے کہ اس کا physically کوئی وجود نہیں ہے،  لیکن پھر بھی اس کی حقیقت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، اس وقت  کئی ہزار کرنسیاں موجود ہیں اور اس کی مارکیٹ  2 بلین ڈالرز سے زیادہ ہے۔

3)حکومتِ  پاکستان نے خیبر پختون خواہ میں bitcoin مائن کرنے کی اجازت دے دی ہے،  اگر اسے مائن کریں تو یقیناً اسے فروخت کیا جائے گا یا کیش کروایا جائے گا،  لیکن ابھی اس چیز کی اجازت نہیں ہے۔

4) اگر یہ حرام ہے تو اس سے اپنی ذاتی investment نکالنے کے بعد کمائے ہوئے منافع کا کیا کیا جائے؟

جواب

1 : ’’بٹ کوائن‘‘ محض ایک فرضی کرنسی ہے، اس میں حقیقی کرنسی کے بنیادی اوصاف اور شرائط  موجود نہیں ہیں، لہذا موجودہ  زمانے میں  " کوئن" یا  "ڈیجیٹل کرنسی" کی خرید و فروخت کے نام سے انٹرنیٹ پر اور الیکٹرونک مارکیٹ میں جو کاروبار چل رہا ہے وہ حلال اور جائز نہیں ہے، وہ محض دھوکا ہے، اس میں حقیقت میں کوئی مادی چیز نہیں ہوتی، اور اس میں قبضہ بھی نہیں ہوتا صرف اکاؤنٹ میں کچھ عدد آجاتے ہیں، اور یہ فاریکس ٹریڈنگ کی طرح سود اور جوے کی ایک شکل ہے، اس لیے  " بٹ کوائن" یا کسی بھی  " ڈیجیٹل کرنسی" کے نام نہاد کاروبار میں پیسے لگانا اور خرید و فروخت میں شامل ہونا جائز نہیں ہے۔

( تجارت کے مسائل کا انسائیکلوپیڈیا: 2/ 92)

2 : کسی چیز کے دنیاوی طور پر قیمتی ہوجانے سے شرعی حکم پر فرق نہیں پڑتا۔

3 : جو چیز شرعًا مال نہ ہو، وہ حکومت کی اجازت سے مال نہیں بنے گی۔

4 : مذکورہ ناجائز منافع کے وبال سے جان چھڑانے کی نیت سے اسے بغیر ثواب کی نیت کے کسی مستحق کو  صدقہ کردے۔

العرف الشذي شرح سنن الترمذي (1/ 38):

"إن ها هنا شيئان:

أحدهما: ائتمار أمر الشارع والثواب عليه.

والثاني: التصدق بمال خبيث، والرجاء من نفس المال بدون لحاظ رجاء الثواب من امتثال الشارع، فالثواب إنما يكون على ائتمار الشارع، وأما رجاء الثواب من نفس المال فحرام، بل ينبغي لمتصدق الحرام أن يزعم بتصدق المال تخليص رقبته ولايرجو الثواب منه، بل يرجوه من ائتمار أمر الشارع، وأخرج الدارقطني في أواخر الكتاب: أن أبا حنيفة رحمه الله سئل عن هذا فاستدل بما روى أبو داود من قصة الشاة والتصدق بها."

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144209200614

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں