بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 ذو القعدة 1445ھ 13 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بٹ کوائن کی ٹریڈنگ سے متعلق چند سوالات


سوال

 1۔بٹ کوائن کی ٹریڈنگ پر حاصل شدہ نفع کا کیا حکم ہے؟

2۔ بٹ کوائن کی ٹریڈنگ کرنے والے شخص سے غیر سودی قرض لینا ٹھیک ہے؟

3۔. بٹ کوائن کی ٹریڈنگ پر حاصل شدہ نفع سے کوئی حلال کاروبار کرنا کیسا ہے؟

4۔ کیا بٹ کوائن کی ٹریڈنگ کرنے والے شخص کو اپنے کاروبار میں شریک بنانا درست ہے؟

5۔ کیا بٹ کوائن کی ٹریڈنگ کرنے والے شخص کو اپنے کاروبار میں سرمایہ دار بناکر حاصل ہونے  والے نفع میں فیصد کے اعتبار سے شریک کرنا ٹھیک ہے؟

6۔ کیا بٹ کوائن میں ٹریڈنگ کی کوئی جائز صورت بھی ہے؟

جواب

واضح رہے کہ آج کل جو عالمی مارکیٹ میں کرپٹو کرنسی رائج ہے وہ ایک فرضی کرنسی ہے ،اس میں حقیقی کرنسی کے بنیادی اوصاف اور شرائط بالکل موجود نہیں ہیں؛  لہذا کرپٹو کرنسی  کی خرید و فروخت کے نام سے جو الیکٹرونک  مارکیٹ میں کاروبار چل رہا ہے وہ  حلال اور جائز  نہیں ہے،اس کرنسی میں حقیقت میں کوئی مبیع یعنی مادی چیز نہیں ہوتی اور  اس میں قبضہ بھی نہیں ہوتا صرف اکاونٹ  میں کچھ  حساب کتا ب کے  عدد آجاتے ہیں؛  لہذا کرپٹو کرنسی کے لین دین سے کلی طور  پر اجتناب سے  کیا جائے۔لہذا صورت مسئولہ میں :

1۔اگر کسی نے لاعلمی کی بنیاد پر بٹ کوائن میں انویسمنٹ کرلی تو حاصل شدہ نفع بغیر ثواب کی نیت کے صدقہ کردے ۔

2۔ اگر قرض لینے والے کو  علم ہو کہ قرض دینے والا ناجائز کاروبار یا آمدنی سے قرض دے رہا ہے تو اس سے قرض   نہیں لینا چاہیے؛تاکہ اس کے ناجائز عمل کی حوصلہ شکنی ہو اور کاروبار میں بےبرکتی نہ ہو۔

3۔جواب کی پہلی شق میں یہ وضاحت ہوگئی ہے کہ حاصل شدہ نفع کو ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کردیں ،اس رقم کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں ۔

4،5۔اگر بٹ کوائن کی ٹریڈنگ کرنےوالا شخص شرکت کے لیے حرام سرمایہ دے رہا ہے تو یہ صورت تو شرعا جائز نہیں ہے اور اگر وہ حلال سرمایہ دے تو اس صورت میں اس کو شریک بنانے کی گنجائش ہے ،تاہم اگر شریک نہ  بنایاجائے تو بہتر ہے تاکہ اس کے ناجائز کام کرنے پر حوصلہ شکنی ہوسکے ۔

6۔اب تک  بْٹ کوائن میں ٹریڈنگ کی کوئی جائز صورت واضح نہیں ہوئی ،اگر  آپ کسی خاص صورت کے بارے میں سوال کرنا چاہتے ہیں تو  وضاحت کے ساتھ تمام تر تفصیلات لکھ کر بھیج دیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: مالا أو لا) إلخ، المراد بالمال ما يميل إليه الطبع ويمكن ادخاره لوقت الحاجة، والمالية تثبت بتمول الناس كافة أو بعضهم، والتقوم يثبت بها وبإباحة الانتفاع به شرعا؛ فما يباح بلا تمول لايكون مالًا كحبة حنطة وما يتمول بلا إباحة انتفاع لا يكون متقوما كالخمر، وإذا عدم الأمران لم يثبت واحد منهما كالدم بحر ملخصًا عن الكشف الكبير.

وحاصله أن المال أعم من المتمول؛ لأن المال ما يمكن ادخاره ولو غير مباح كالخمر، والمتقوم ما يمكن ادخاره مع الإباحة، فالخمر مال لا متقوم،» ... وفي التلويح أيضًا من بحث القضاء: والتحقيق أن المنفعة ملك لا مال؛ لأن الملك ما من شأنه أن يتصرف فيه بوصف الاختصاص، والمال ما من شأنه أن يدخر للانتفاع وقت الحاجة، والتقويم يستلزم المالية عند الإمام والملك ... وفي البحر عن الحاوي القدسي: المال اسم لغير الآدمي، خلق لمصالح الآدمي وأمكن إحرازه والتصرف فيه على وجه الاختيار، والعبد وإن كان فيه معنى المالية لكنه ليس بمال حقيقة حتى لايجوز قتله وإهلاكه."

(کتاب البیوع ج نمبر ۴ ص نمبر ۵۰۱،ایچ ایم سعید)

وفي الموسوعة الفقهية الكويتية :

"والواجب في الكسب الخبيث تفريغ الذمة والتخلص منه برده إلى أربابه إن علموا ، وإلا إلى الفقراء ."

(34/ 245ط:وزارة الأوقاف الشؤن الإسلامية)

منحة الخالق لابن العابدين میں ہے:

"وَيَجِبُ عَلَيْهِ تَفْرِيغُ ذِمَّتِهِ بِرَدِّهِ إلَى أَرْبَابِهِ إنْ عُلِمُوا وَإِلَّا إلَى الْفُقَرَاءِ."

(منحة علي البحر، كتاب الزكوة، شروط وجوب الزكوة، ٢ / ٢١١، ط: دار الكتاب الإسلامي )

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144402100959

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں