بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بٹ کوئن اور آن لائن ڈالر کی خرید و فروخت کے کاروبار کا حکم


سوال

Bitcoins اور ڈالر کی آن لائن خرید وفروخت کا کاروبار جائز ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ "بٹ کوئن" ( Bitcoin) اور اس طرح کی دیگر ڈیجیٹل کرنسی جنہیں  "کرپٹو کرنسی"  کہا جاتا ہے، کا خارج میں کوئی حسی وجود نہیں پایا جاتا لہذا اسے "کرنسی" یا "مال" قرار نہیں دیا جاسکتا ہے؛ لہذا اس کے  ذریعہ لین دین کرنا، اس میں سرمایہ کاری کرنا اور اس کا کاروبار کرنا جائز نہیں ہے۔

اسی طرح  ڈالر و کرنسی کی آن لائن خرید و فروخت کا کاروبار کرنا جائز نہیں ہے، کیوں کہ ڈالر و کرنسی کی بیع شرعاً "بیعِ صرف" ہے، جس  میں بدلین (جانبین کی کرنسی) پر مجلس میں قبضہ ضروری ہے اور  دونوں جانب سے یا کسی ایک جانب سے ادھار ناجائز ہے، لہذا ایسے تمام سودے ناجائز ہیں، جن میں کرنسی کی خرید و فروخت ادھار ہوتی ہے  یا اگر  خرید و فروخت  نقد ہوتی ہے، مگر عقد کے دونوں فریق  یا کوئی ایک فریق اپنے حق پر قبضہ نہیں کرتا۔ الحاصل باہمی  تقابض نہ پائےجانے کی وجہ سے ایسے سودے فاسد ہوں گے اور نفع حلال نہ ہوگا۔

لہذا آن لائن ڈالر و کرنسی کے کاروبار میں عموماً  کرنسی کی خرید و فروخت ادھار ہوتی ہے، اور بعض صورتوں میں  نہ  کرنسی ادا کی جاتی ہے، اور نہ ہی کرنسی  وصول کی جاتی ہے، بلکہ محض سودے ہوتے ہیں اور کرنسی کے مارکیٹ انڈیکس کے فرق سے نفع بنالیا جاتا ہے، یا آن لائن انٹرنیٹ پر ہی سودے ہوتے رہتے ہیں اور اکاؤنٹ میں رقم باقی رہتی ہے اور  دن کے آخر میں رقم میں نفع کا اضافہ یا نقصان کی کٹوتی کردی جاتی ہے، لہذا ان صورتوں پر مشتمل سودے حلال نہیں ہوں گے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: مالا أو لا) إلخ، المراد بالمال ما يميل إليه الطبع ويمكن ادخاره لوقت الحاجة، والمالية تثبت بتمول الناس كافة أو بعضهم، والتقوم يثبت بها وبإباحة الانتفاع به شرعا؛ فما يباح بلا تمول لا يكون مالا كحبة حنطة وما يتمول بلا إباحة انتفاع لا يكون متقوما كالخمر، وإذا عدم الأمران لم يثبت واحد منهما كالدم بحر ملخصا عن الكشف الكبير.

وحاصله أن المال أعم من المتمول؛ لأن المال ما يمكن ادخاره ولو غير مباح كالخمر، والمتقوم ما يمكن ادخاره مع الإباحة، فالخمر مال لا متقوم... وفي التلويح أيضا من بحث القضاء: والتحقيق أن المنفعة ملك لا مال؛ لأن الملك ما من شأنه أن يتصرف فيه بوصف الاختصاص، والمال ما من شأنه أن يدخر للانتفاع وقت الحاجة، والتقويم يستلزم المالية عند الإمام والملك عند الشافعي. وفي البحر عن الحاوي القدسي: المال اسم لغير الآدمي، خلق لمصالح الآدمي وأمكن إحرازه والتصرف فيه على وجه الاختيار، والعبد وإن كان فيه معنى المالية لكنه ليس بمال حقيقة حتى لا يجوز قتله وإهلاكه. اهـ."

(كتاب البيوع، ج: 4، ص: 502،501، ط: سعيد)

وفيه أيضاً:

"والمال ما يميل إليه الطبع ويجري فيه البذل والمنع درر.

(قوله والمال) أي من حيث هو لا المذكور قبله؛ لأن التعريف المذكور يدخل فيه الخمر فهي مال، وإن لم تكن متقومة، ولذا قال بعده: وبطل بيع مال غير متقوم كخمر وخنزير فإن المتقوم هو المال المباح الانتفاع به شرعا وقدمنا أول البيوع تعريف المال بما يميل إليه الطبع ويمكن ادخاره لوقت الحاجة، وأنه خرج بالادخار، المنفعة فهي ملك لا مال؛ لأن الملك ما من شأنه أن يتصرف فيه بوصف الاختصاص كما في التلويح، فالأولى ما في الدرر من قوله المال موجود يميل إليه الطبع إلخ فإنه يخرج بالموجود المنفعة فافهم. ولا يرد أن المنفعة تملك بالإجارة؛ لأن ذلك تمليك لا بيع حقيقة، ولذا قالوا: إن الإجارة لا بيع المنافع حكما: أي إن فيها حكم البيع وهو التمليك لا حقيقته، فاغتنم هذا التحرير."

(كتاب البيوع، ‌‌باب البيع الفاسد، ج: 5، ص: 51،50، ط: سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(وأما شرائطه) فمنها ‌قبض ‌البدلين ‌قبل الافتراق كذا في البدائع سواء كانا يتعينان كالمصوغ أو لا يتعينان كالمضروب أو يتعين أحدهما ولا يتعين الآخر كذا في الهداية وفي فوائد القدوري المراد بالقبض ههنا القبض بالبراجم لا بالتخلية يريد باليد كذا في فتح القدير."

(كتاب الصرف، الباب الأول في تعريف الصرف وركنه وحكمه وشرائطه، ج: 3، ص: 217، ط: دار الفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"وشرعا (بيع الثمن بالثمن)... (جنسا بجنس أو بغير جنس) كذهب بفضة (ويشترط) عدم التأجيل والخيار... (والتقابض) بالبراجم لا بالتخلية (قبل الافتراق) وهو شرط بقائه صحيحا على الصحيح (إن اتحد جنسا... (وإلا) بأن لم يتجانسا (شرط التقابض) لحرمة النساء.

(قوله: لحرمة النساء) بالفتح أي التأخير فإنه يحرم بإحدى علتي الربا: أي القدر أو الجنس."

(كتاب البيوع، ‌‌باب الصرف، ج: 5، ص: 257۔259، ط: سعيد)

تجارت کے مسائل کے انسائیکلو پیڈیا میں ہے:

"بٹ کوئن" محض ایک فرضی کرنسی ہے، اس میں حقیقی کرنسی کے بنیادی اوصاف اور شرائط بالکل موجود نہیں ہیں۔ لہذا موجودہ  زمانے میں " کوئن" یا "ڈیجیٹل کرنسی" کی خرید و فروخت کے نام سے انٹرنیٹ پر اور الیکٹرونک مارکیٹ میں جو کاروبار چل رہا ہے وہ حلال اور جائز نہیں ہے، وہ محض دھوکہ ہے، اس میں حقیقت میں کوئی مبیع وغیرہ مادی چیز نہیں ہوتی، اور اس میں قبضہ بھی نہیں ہوتا صرف اکاؤنٹ میں کچھ عدد آجاتے ہیں، اور یہ فاریکس ٹریڈنگ کی طرح سود اور جوے کی ایک شکل ہے، اس لیے بٹ کوئن یا کسی بھی ڈیجیٹل کے نام نہاد کاروبار میں پیسے لگانا اور خرید و فروخت میں شامل ہونا جائز نہیں ہے۔

(ج: 2، ص: 92، ط: بیت العمار کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507100063

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں