’’بسم الله الرحمن الرحيم‘‘ میں رحمٰن کو مقدم اور رحیم کو مؤخر کیوں کیا؟
علامہ بیضاوی ؒ نے اپنی تفسیر ’’أنوار التنزيل وأسرار التأويل‘‘ میں لفظ ’’رحمٰن‘‘ کو لفظ ’’رحیم‘‘ پر مقدم کرنے کی مندرجہ ذیل وجوہات بیان کی ہیں:
1. لفظ رحمٰن بمنزلہ علم ہے اور اس کے اندر معنی وضعی ہیں ، یعنی لفظ ’’رحمٰن‘‘ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی صفت واقع نہیں ہوتا ، جب کہ لفظ ’’رحيم‘‘ وہ رسول کی صفت واقع ہوا ہے ، ارشادِ باری تعالیٰ ہے :بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ (سورۃ التوبة:128) ، اسی طرح رحم دل شخص کو بھی رحیم کہہ دیا جاتا ہے ، لیکن رحمٰن نہیں کہہ سکتے ، تو رحمٰن بمنزلۂ علم ہوا ؛ اس لیے اس کی تقدیم رحیم پر انسب ہے ، کیوں قاعدہ ہے کہ اعلام صفات پر مقدم ہوتے ہیں ، اور رحمٰن کے بمنزلہ علم ہونے کی وجہ یہ ہے کہ رحمٰن کامعنی ہے "منعمِ حقیقی" ، یعنی جو رحمت میں انتہاء کو پہنچ چکا ہو اور یہ صفت اللہ تعالے کےسوا کسی اور میں نہیں پائی جاتی ، کیونکہ منعم حقیقی وہ ہوتا ہے کہ جس کا انعام بلا عوض ہو ،تو وہ صرف اللہ کی ذات ہے ۔ اللہ کے علاوہ جو لوگ کسی پر انعام و احسان کرتے ہیں تو مقابل میں کسی چیز کے طالب ہوتے ہیں ،مستعیض کا معنی عوض طلب کرنے والا اور یہ معاوضہ چار قسم کا ہوتا ہے :
2. لفظِ رحمٰن کمیت کے اعتبار سے ابلغ ہے ؛ کیوں کہ اس کا تعلق دنیا و آخرت دونوں کے ساتھ ہے ، جب کہ رحیم کا تعلق باعتبار کمیت کے صرف آخرت کے ساتھ ہے ، رحمٰن میں دنیا کا ذکر بھی ہے جو کہ مقدم ہے اور رحیم میں صرف آخرت کا ذکر ہے جو کہ مؤخر ہے ، اور قاعدہ ہے کہ جو لفظ ایسی رحمت پر دال ہو کہ جس کا تعلق مقدم شی سے ہو ایسے لفظ کو مقدم کیا جاتا ہے اس لفظ پر جو ایسی رحمت پر دال ہو جس کا تعلق مؤخر شی کے ساتھ ہو۔
3. لفظ ’’رحمن‘‘ کو باعتبار کیفیت کے دیکھا جائے تو اصل بات یہ ہے کہ ’’بسم اللہ‘‘ اصل میں تردیدِ مشرکین کے لئے موحّد کو ایک سبق ہے کہ لات عزّیٰ کے دعویٰ کی بجائے فقط ذاتِ باری کی ہی تعظیم کرنی ہے، تو تعریض للمشرکین کے لئے ’’بسم الله‘‘ میں اظہارِ عظمتِ باری تعالٰی مقصود ہے اور اس کا تقاضا یہ ہے کہ مقام کو دیکھتے ہوئے عَلمِ ذاتی کے بعد ایسی صفت کو ذکر کیا جائے جس میں اظہارِ عظمت باری تعالٰی ہو جب کہ ’’الرحمن‘‘ میں جلائلِ نعم کا ذکر ہے، تو لفظ ’’رحمٰن‘‘ کے بعد ایک تو ہم پیدا ہوتا تھا ؛اس لیے بطورِتتمۂ مضمون کے ازالہ تو ہم کرتے ہوئے لفظ ’’ر حیم‘‘ کا ذکر کیا اور توہم یہ تھا کہ جلائلِ نعم کے ’’معطي في الا ٰخرۃ و الدنیا‘‘ تو باری تعالٰی ہی ہیں ،لیکن شاید صغارِ نعم اور حقائرِ نعم کے معطی باری تعالٰی نہ ہوں ،تو اس کا ازالہ کردیا کہ یہ توہم نہ ہو ،بلکہ ہر قسم کی جلائل وحقائر نعم کے معطی باری تعالی ہی ہیں ،تو معنی ہوا کہ ’’فاعلم یا عبـدى كـمـا عـلـمـتـنـي أنا رحمٰن اُطلُب منّی عظیم مهماتك فاعلم إِنِّی رحیم أُطلُب منّى دقائق نعمتي‘‘.
"أنوار التنزيل وأسرار التأويل للبيضاوي" میں ہے:
"والرحمن الرحيم ... وإنما قدم والقياس يقتضي الترقي من الأدنى إلى الأعلى، لتقدم رحمة الدنيا، ولأنه صار كالعلم من حيث إنه لا يوصف به غيره لأن معناه المنعم الحقيقي البالغ في الرحمة غايتها، وذلك لا يصدق على غيره لأن من عداه فهو مستعيض بلطفه وإنعامه يريد به جزيل ثواب أو جميل ثناء أو مزيج رقة الجنسية أو حب المال عن القلب، ثم إنه كالواسطة في ذلك لأن ذات النعم ووجودها، والقدرة على إيصالها، والداعية الباعثة عليه، والتمكن من الانتفاع بها، والقوى التي بها يحصل الانتفاع، إلى غير ذلك من خلقه لا يقدر عليها أحد غيره. أو لأن الرحمن لما دل على جلائل النعم وأصولها ذكر الرحيم ليتناول ما خرج منها، فيكون كالتتمة والرديف له. أو للمحافظة على رؤوس الآي."
(سورة الفاتحة:1، آية:2، ج:1، ص:27، ط:دار إحياء التراث العربي بيروت)
"تفسیر ابن کثیر" میں فرماتے ہیں:
"اسمان مشتقان من الرحمة على وجه المبالغة، ورحمن أشد مبالغة من رحيم ، وفي كلام ابن جرير مايفهم حكاية الاتفاق على هذا، وفي تفسير بعض السلف ما يدل على ذلك، كما تقدم في الأثر، عن عيسى - عليه السلام - أنه قال : والرحمٰن رحمٰن الدنيا والآخرة، والرحيم رحيم الآخرة."
(سورة الفاتحة، آية:1، ط:دار ابن حزم بيروت)
ترجمہ : "یہ دونوں نام (رحمٰن اور رحیم) "رحمت" سے مشتق ہیں، اور ان میں مبالغہ کا معنٰی ہے ، پھر "رحمٰن" میں "رحیم" سے زیادہ مبالغہ ہے ۔ علامہ ابن جریر رحمہ اللہ نے اس بارے میں جو بحث کی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہےکہ وہ اس پر اہلِ علم کا اتفاق نقل کررہے ہیں، اور سلف کی بعض تفاسیر میں بھی ایسی تعبیرات ہیں جو اس (اتفاق) پر دلالت کرتی ہیں، جیساکہ عیسیٰ علیہ السلام کے قول کے حوالہ سے پہلے گزرچکاہے کہ انہوں نے فرمایا: " رحمن سے مراد دنیا اور آخرت میں رحم کرنے والا اور رحیم سے مراد آخرت میں رحم کرنے والا ہے۔"
معارف القرآن میں مفتی شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتےہیں :
"الرحمٰن الرحیم: یہ دونوں اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں ، "رحمٰن"کے معنی " عام الرحمة "کے اور"رحیم"کے معنی "تام الرحمة"کے ہیں ،"عام الرحمة"سے مطلب یہ ہے کہ وہ ذات جس کی رحمت سارے عالم اور ساری کائنات اور جو کچھ اب تک پیدا ہوا ہے اور جو کچھ ہوگا سب پر حاوی اور شامل ہو ، اور "تام الرحمة"کا مطلب یہ ہے کہ اس کی رحمت کامل و مکمل ہو۔ یہی وجہ ہے کہ "رحمٰن"اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات کے ساتھ مخصوص ہے ، کسی مخلوق کو "رحمٰن"کہنا جائز نہیں، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بھی ایسا نہیں ہوسکتا جس کی رحمت سے عالم کی کوئی چیز خالی نہ رہے ... بخلاف لفظِ "رحیم"کے کہ اس کے معنی میں کوئی ایسی چیز نہیں جس کا پایا جانامخلوق میں نا ممکن ہو؛ کیوں کہ یہ ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص کسی شخص سے پوری پوری رحمت کا معاملہ کرے۔"
(معارف القرآن از حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ، ج:1، ص:76، ط:مکتبہ معارف القرآن)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144411100438
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن