بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بسم اللہ اور استغفر اللہ کو بطورِ وظیفہ کیسے پڑھیں؟


سوال

میں "بسم اللہ" کا ورد کرتا ہوں،ویسے تو پوری بسم اللہ پڑھتا ہوں، مگر مجھے پوچھنا یہ ہے کہ "بسم اللہ" اور "استغفراللہ" کا ورد کرنے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟ صرف "بسم اللہ" اور صرف "استغفراللہ" پڑھنا صحیح ہے، یا پوری "بسم اللہ الرحمٰن الرحیم" اور اسی طرح پوری "استغفراللہ" پڑھنا صحیح ہے؟ 

جواب

واضح رہے کہ ہر اچھے کام کی ابتداء میں تو بسم اللہ پڑھنا مسنون ہے، مگر بسم اللہ کو بطورِ ورد یا وظیفے کے پڑھنا مسنون نہیں ہے، البتہ بزرگوں میں سے بعض حضرات کے نزدیک بعض مسائل کے حل کے لیے اس کا پڑھنا مجرب ہے، جیسا کہ مفتی  محمد شفیع عثمانی صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ نے جواہر الفقہ میں متعدد مجربات ایسے ذکر کیے ہیں جہاں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کو کسی خاص مقصد کے حصول کے لیے مخصوص مقدار میں پڑھنے یا لکھنے وغیرہ کا بیان کیا گیا ہے (ملاحظہ کیجئے جواہر الفقہ، احکام وخواصِ بسم اللہ، بسم اللہ کے بعض خواص مجربہ، ٢/ ١٨٦، ط: مکتبہ دارالعلوم کراچی)، تاہم وہاں ہر جگہ مکمل "بسم اللہ الرحمٰن الرحیم" ہی کو پڑھنے کا بتایا گیا ہے۔ البتہ ایسے وظائف یا اوراد، جو مجربات کے قبیل سے ہوں، انہیں کسی بزرگ سے پوچھ کر اُن کی راہ نمائی میں ہی اپنے معمول میں لانا چاہیے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اولاً تو سائل کو چاہیے کہ وہ کسی متبعِ سنت اور معتمد بزرگ  کی راہ نمائی سے اپنے معمولات طے کرے،    باقی جہاں تک استغفار کا تعلق ہے تو "استغفار'' کے معنی ہیں مغفرت طلب کرنا،  اپنے گناہوں اور قصوروں کی معافی مانگنااور بخشش طلب کرنا،لہٰذا  اس مفہوم کی ادائیگی کے لیے سچے دل سے صرف ”أستغفر الله “بھی کہا جاسکتا ہے، تاہم استغفار کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ استغفاران الفاظ سے کیا جائے: أَسْتَغْفِرُ اللّٰه الَّذِيْ لَا اِلٰـه اِلَّا هُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ وَأَتُوْبُ إِلَیْه، یہ استغفار نبی کریم ﷺ سے منقول ہے۔

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

" قال: «كل أمر ذي بال لا يبدأ فيه ببسم الله الرحمن الرحيم فهو أبتر» أي: قليل البركة، أو معدومها، وقيل: إنه من البتر، وهو القطع قبل التمام والكمال، والمراد بذي البال ذو الشأن في الحال، أو المآل."

(مقدمة، ١/ ٣، ط:دار الفكر)

سنن ابي داود میں ہے:

"سمعت بلال بن يسار بن زيد، مولى النبي صلى الله عليه وسلم، قال: سمعت أبي، يحدثنيه عن جدي، أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: من قال: أستغفر الله الذي لا إله إلا هو الحي القيوم، وأتوب إليه، غفر له، وإن كان قد فر من الزحف."

(باب تفریع أبواب الوتر،باب في الإستغفار،٢/ ٨٥، ط:المکتبۃ العصریۃ)

بذل المجھہود میں ہے:

"قال: سمعت بلال بن يسار بن زيد مولى النبي - صلى الله عليه وسلم - قال: سمعت أبي يحدثنيه عن جدي،(أنه سمع النبي - صلى الله عليه وسلم - يقول: من قال) بصميم قلبه: (أستغفر الله الذي لا إله إلا هو الحي القيوم) رواية النصب أكثر، منصوب على أنه صفة الله، أو مرفوع على أنه بدل من هو، (وأتوب إليه، غفر له وإن كان فر من الزحف)، أي: وإن ارتكب الكبيرة، فإن الفرار من الزحف كبيرة، أوعد الله تعالى عليه، وقال: {ومن يولهم يومئذ دبره إلا متحرفا لقتال أو متحيزا إلى فئة فقد باء بغضب من الله}...الآية."

(باب في الإستغفار، ٦/ ٢٥٣، ط: مركز نخب العلمية)

صحیح مسلم میں ہے:

"عن ‌ثوبان قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا انصرف من صلاته استغفر ثلاثًا، و قال: اللهم أنت السلام، ومنك السلام، تباركت ذا الجلال والإكرام. قال الوليد: فقلت للأوزاعي: كيف الإستغفار؟ قال: تقول: ‌أستغفر ‌الله، ‌أستغفر ‌الله."

(‌‌كتاب المساجد ومواضع الصلاة، ‌‌باب استحباب الذكر بعد الصلاة وبيان صفته، ٢/ ٩٤، ط: دار طوق النجاة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507102115

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں