بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیرون ملک مقیم طلباء کے لیے 20 گھنٹے سے زائد کام کرنے کا حکم


سوال

بیرون ممالک مقیم طلبا جن کو ان کے ویزا کی وجہ سے  ایک ہفتہ میں صرف 20 گھنٹے  کام کرنے کی اجازت ہوتی ہے،کیا وہ اس سے زیادہ کام کر سکتے ہیں اپنے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے،اس کی کیا شرعی حیثیت ہے۔؟

جواب

واضح رہے کہ جب کوئی شخص کسی دوسرے ملک جاتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ اس ملک کے جائز  قوانین کی پاسداری کرے، البتہ اگر اس ملک  کا کوئی قانون اسلام کے مخالف ہے تو ایک مسلمان پر اس قانون کی پاسداری لازم نہیں ہے ،اور اگر کوئی قانون اسلام کے مخالف تو نہیں ہے البتہ اس میں کسی مباح چیزوں سے روکا گیاہے اور اس میں عوام کا فائدہ ہے  تو اس کی پاسداری بھی لازم ہےاوراگر  اس قانون میں عوام  کا کوئی فائدہ نہیں  تو اس قانون کی پاسداری لازم نہیں ،البتہ اگر اس کام کی وجہ سے گرفتاری  کاخدشہ ہو تو اس سے اجتناب کرنا چاہیے تاکہ بےعزتی نہ ہو،باقی جائز کام کرنے سے جو رقم ملے گی وہ حلال ہوگی۔ 

لہٰذا صورت مسئولہ میں جو طلبہ بیرون ملک جاتے ہیں اور ان کو اس ملک کی طرف سے ایک ہفتے میں صرف  20 گھنٹے کام کرنے کی اجازت ہے تو  ایسی صورت میں  اپنے اخراجات پورا کرنے کےلیے بیس گھنٹے سے زیادہ کام کرنا شرعاً تو جائز ہے البتہ ملکی قانون کے اعتبار سے منع ہے، اس لئے بیس گھنٹے سے زیادہ کام کرنے سے بچنا چاہیے باقی کام کرنے سے جواجرت ملے گی وہ حلال ہوگی۔

فتاوی شامی  میں ہے:

"والخاص لا يمكنه أن يعمل لغيره؛ لأن منافعه في المدة صارت مستحقة للمستأجر والأجر مقابل بالمنافع ولهذا يبقى الأجر مستحقا وإن نقض العمل."

(کتاب الاجارۃ،باب ضمان الاجارۃ،ج:6،ص:64،ط:سعید)

فتاوی شامی میں ہے :

"والأجرة إنما تكون ‌في ‌مقابلة ‌العمل."

(کتاب النکاح ،باب المہر،ج:3،ص:156،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401100319

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں