بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

برتھ ڈے اور ویلنٹائن ڈے پر گلاب کے پھول اور سامان بیچنے کا حکم


سوال

میرا بھائی گلاب کے پھول اور بھی پھولوں سے ڈیکوریشن کرتے ہیں، یہ ان کا کام ہے ، شادی ہال میں پھولوں سے ڈیکوریشن اور برتھ ڈ ے کی ڈیکوریشن اور جب ویلنٹائن ڈے آتا تو جو آ ن لائن آ ڈر کرتا ہے اس کے گھر پھولوں کے گلدستے ڈیلیور کرتا ہے، اور اس لیے تنخواہ  پر ڈیلیوری بوائے رکھا ہوا ہے ۔پوچھنا یہ ہے کہ یہ سب کام  جائز اور حلال ہے ؟ڈیلیوری بوائے کے لیے یہ نوکری اور تنخواہ حلال ہے ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کے بھائی کا گلاب کے پھولوں کو  بیچنا اور ڈلیور کرنا جائز ہے،اور ڈلیوری بوائے کی  تنخواہ بھی حلال ہے، ان گلاب کے پھولوں  کے بے جا اور غلط استعمال کرنے کا گناہ استعمال کرنے والے پر ہوگا،البتہ اگر اِن گلاب کے پھولوں کی کوئی خاص شکل ہو،اور وہ برتھ ڈے اور ویلنٹائن ڈے جیسے دنوں میں استعمال کے لیے ہی بنائے گئے ہوں تو  یہ گناہ اور معصیت کے تعاون کرنے میں آتا ہے،اور شریعت میں جس طرح گناہ کرنے سے روکا گیا ہے اسی طرح گناہ پر دوسرے کی معاونت کرنے سے بھی منع کیا گیا ہے۔

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"أن ‌الأصل ‌في ‌الأشياء الإباحة، وأن الحرمة بالنهي عنها شرعا، فإنه قال؛ لأن شرب الخمر، وأكل الميتة لم يحرم إلا بالنهي عنهما."

(كتاب الإكراه، ج: 24، ص: 77، ط: دار المعرفة)

مجلۃ الأحکام العدلیۃ میں ہے:

"تلزم الأجرة باستيفاء المنفعة مثلا لو استأجر أحد دابة على أن يركبها إلى محل ثم ركبها ووصل إلى ذلك المحل يستحق آجرها الأجرة."

(الكتاب الثاني الإجارات، الفصل الثاني في بيان المسائل المتعلقة بسبب لزوم الأجرةو كيفية استحقاق الآجر الأجرة، ص: 89، ط: نور محمد ،كارخانه كتب تجارت،آرام باغ كراتشي)

المحیط البرہانی میں ہے:

"لا تجوز الإجارة على شيء من اللهو والمزامير والطبل وغيره، لأنها معصية والإجارة على المعصية باطلة."

(كتاب الإجارات، ج: 7، ص: 482، ط: دار الكتب العلمية)

مجمع الانھر فی شرح ملتقی الابحر میں ہے:

" يجوز في كل ما لا يتعين على الأجير وعند مالك يجوز على الإمامة إذا جمعها مع الأذان (أو المعاصي) أي لا يجوز أخذ الأجرة على المعاصي (كالغناء، والنوح، والملاهي) لأن المعصية لا يتصور استحقاقها بالعقد فلا يجب عليه الأجر، وإن أعطاه الأجر وقبضه لا يحل له ويجب عليه رده على صاحبه۔

وفي المحيط إذا أخذ المال من غير شرط يباح له؛ لأنه عن طوع من غير عقد.

وفي شرح الكافي لا يجوز الإجارة على شيء من الغناء والنوح، والمزامير، والطبل أو شيء من اللهو ولا على قراءة الشعر ولا أجر في ذلك.

وفي الولوالجي: رجل استأجر رجلا ليضرب له الطبل إن كان للهو لا يجوز، وإن كان للغزو أو القافلة أو العرس يجوز؛ لأنه مباح فيها."

(كتاب الإجارة ، باب الإجارة الفاسدة، ج: 2، ص: 384، ط: دار إحياء التراث العربي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144408101911

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں