بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بریلوی کا دیوبندی کے ساتھ نکاح کرنے کا حکم


سوال

ایک لڑکی  کا رشتہ آیا ہوا ہے ، لڑکی والے دیوبندی مسلک  سے تعلق رکھتے ہیں، جب کہ لڑکے والے بریلوی فرقے  سے تعلق  رکھتے ہیں، اپنے آپ کو ان کی ایک تنظیم سے جڑے ہوے بتاتے ہے، تو کیا اس دیوبندی مسلک سے تعلق رکھنے  والی لڑکی کا نکاح بریلوی مسلک سے تعلق رکھنے والے لڑکے سے ہو سکتاہے؟

جواب

واضح  رہے کہ نکاح ایک بہت بڑی نعمت ہے اس کو بر قرار رکھنے  کے لیے اور زندگی کو خوش گوار  بنانے کے لیے مرد اور عور ت کی  فکر ، نظریہ اور دین ومذہب ایک ہونا، ہم آہنگ ہونا  نہایت ضروری ہے بصورت دیگر زندگی میں تلخیاں اور جگھڑے جنم  لے گی۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں دیوبندی  مسلک کی لڑکی اور بریلوی مسلک کے لڑکے  کے در میان نکاح جائزہے،  البتہ  دیوبندی مسلک کا   کوئی برابر لڑکا اگر  مل  جائے تو اس کو تر جیح  دینا بہتر اور افضل ہے، تاکہ مسلک کے اختلاف کی وجہ سے نکاح متاثر نہ ہو۔

جامعہ ہٰذا کے رئیس دار الافتاء مفتی محمد عبدالسلام چاٹ گامی صاحب رحمہ اللہ  ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں، جس پر مفتی ولی حسن ٹونکی صاحب رحمہ اللہ کی تصدیق موجود ہے:

"واضح رہے کہ بریلوی حضرات کے بعض عقائد کی بنا پر ان کی گم راہی اور غلطی پر ہونے کا فتویٰ دیا جاسکتاہے، لیکن کافر اور مرتد ہونے کا فتویٰ نہیں دیا جاسکتا، اور نہ ہی دیوبندیوں میں سے کسی معتبر عالم نے   بریلویوں کے کافر ہونے کا فتویٰ دیا ہے، اس لیے ہم بریلویوں کو مطلقاً کافر  نہیں سمجھتے، ضرورت کے تحت ان سے اسلامی تعلقات، نکاح وشادی، کھانا پینا اور دوسرے معاملات کو جائز سمجھتے ہیں، اور ہم اختلاف و انتشار کے قائل نہیں۔۔۔ البتہ بریلوی حضرات میں سے جو لوگ ہمیں اور اکابرِ دیوبند کو کافر اور دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے ہیں ان کے بارے میں ہماری رائے یہ ہے کہ دیوبندی مسلک کے لوگ ان سے تعلقات نہ رکھیں، کیوں کہ ایسے لوگوں کے ساتھ تعلقات رکھنے سے اتفاق کی جگہ انتشار ہوگا۔

کتبہ: محمد عبدالسلام (10/10/1395)۔۔۔۔ الجواب صحیح: ولی حسن ٹونکی"

بدائع الصنائع  میں ہے:

"ومنها أن لا تكون المرأة مشركة إذا كان الرجل مسلما، فلا يجوز للمسلم أن ينكح المشركة؛ لقوله تعالى: {ولا تنكحوا المشركات حتى يؤمن} [البقرة: 221] ، ويجوز أن ينكح الكتابية؛ لقوله عز وجل: {والمحصنات من الذين أوتوا الكتاب من قبلكم}،والفرق أن الأصل أن لا يجوز للمسلم أن ينكح الكافرة؛ لأن ازدواج الكافرة والمخالطة معها مع قيام العداوة الدينية لا يحصل السكن والمودة الذي هو قوام مقاصد النكاح."

‌‌[کتاب النکاح ،فصل أن لا تكون المرأة مشركة إذا كان الرجل مسلما،ج:2 ص: 270، ط: دار الکتب العلمیۃ]

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100652

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں