بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بینک یاحمام کی دکاں کے لیے مکان کرایہ پر دینے کاحکم


سوال

 بینک یا ایسے حمام کی دکان کے لیے   مکان کرایہ پر دینا جس  کے بارےمعلوم  ہوکہ اس میں داڑھی منڈوائی  جائے گی یاغیر شرعی بال بنوائے جائیں گے،جائز  ہے یاناجائز؟اور اس کرایہ کاکیاحکم ہے؟نیز ایسی جگہ مزدوری کرنا جائز ہے یاناجائز،جہاں خالص گناہ کے کام ہوتے ہوں(جیسے سینماگھر،میوزک شویاغیر مسلموں کا عبادت خانہ وغیرہ )؟اور اس مزدوری کاکیاحکم ہے حلال ہے یاحرام؟

جواب

صورت مسئولہ میں کسی بھی قسم کے بینک کو اپنی جگہ کرایہ پر دینا شرعاً جائز نہیں، اسی طرح ایسے حمام کی دکان کے لیے  مکان کرایہ پر دینا جس کےبارےمعلوم ہو کہ اس میں داڑھی منڈوائی جائے گی یاغیر شرعی بال بنوائے جائیں گے ناجائزہے،اوراس سے حاصل ہونے والا کرایہ حلال نہیں  ہے،نیزایسی جگہ مزدوری کرنا بھی ناجائز ہے، جہاں خالص گناہ کے کام ہوتےہوں،اور جو پیسے اس مزدوری کے عوض حاصل ہوتے ہیں وہ بھی حرام ہے۔

تفسیر ابن کثیر میں ہے:

"(وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلا تَعَاوَنُوا عَلَى الإثْمِ وَالْعُدْوَانِ)يأمر تعالى عباده المؤمنين بالمعاونة على فعل الخيرات، وهو البر، وترك المنكرات وهو التقوى، وينهاهم عن التناصر على الباطل."

(سورةالمائدۃ،12/2،دار الطیبة)

المحیط البرہانی میں ہے:

"وإذا استأجر الذمي من المسلم بيعة يصلَي فيها فإن ذلك لا يجوز؛ لأنه استأجرها ليصلي فيها وصلاة الذميّ معصية عندنا وطاعة في زعمه، وأي ذلك ما اعتبرنا كانت الإجارة باطلة۔۔۔۔۔۔وإذا استأجر رجل من أهل الذمة مسلماً يضرب لهم الناقوس فإنه لا يجوز لما ذكرنا، وإذا استأجر مسلماً ليحمل له خمراً ولم يقل ليشرب، أو قال ليشرب جازت الإجارة في قول أبي حنيفة خلافاً لهما، وكذلك إذا استأجر الذمي بيتاً من مسلم ليبيع فيه الخمر، جازت الإجارة في قول أبي حنيفة خلافاً لهما."

(کتاب الاجارۃ،فصل فیمایجوز من الاجارۃ ومالایجوز،482/7،دارالکتب العلمیة)

الموسوعۃالفقهيۃالكويتيۃ میں ہے:

"اتفقوا على أنه لا يجوز للمسلم أن يؤجر نفسه للكافر لعمل لا يجوز له فعله كعصر الخمر ورعي الخنازير وما أشبه ذلك."

(حرف الخاء،خدمۃ الكافر للمسلم،19/45۔46،ط:دارالسلاسل۔بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101720

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں