بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بائنینس ایپ Binance میں سرمایہ کاری اور منافع


سوال

(Binance future trading ) کچھ اس طرح ہے کہ آپ کے پاس مثال کے طور پر دس ڈالر ہیں  تو آپ اس  سے  بٹ کوائن  خریدتے اور سیل کرتے وقت کچھ ٹیکس لیتا ہے اور اس میں ایک کام یہ ہوتا ہے کہ آپ کے پاس ڈالر کم ہے مثال کے طور پر پانچ ڈالر ہے تو آپ اس کو سو سے ضرب دیتے ہے تو آپ کا نفع اور نقصان دونوں زیادہ ہوں گے اور بائینانس والے آپ سے کچھ زیادہ چارج وصول کریں گے اس ضرب کے یعنی جو ڈالرز اس نے آپ کو دی ہے لیکن فکس چارج وصول کرتے ہے مثلاً پہلے دس روپے تھے اب بیس ہوگئے،  باقی جتنا نقصان اور نفع آپ اسے حاصل کرسکتے ہو وہ آپ کی ہے اور اس کے ڈالرز آپ کے پاس ایک مہینہ رہے سال رہے جتنی مدت تک رہے اس کا یہی فکس چارج ہوتا ہے،  مدت کے ساتھ بڑھاتے نہیں ہے لیکن ایک بار خرید اور فروخت کر لیا اور دوبارہ کرنا چاہتے ہو تو اس کا الگ چارج لیتے ہےیعنی ہر ایک اور فروخت کا الگ چارج ہوتا ہے لیکن اگر آپ سے ڈالرز پھنس گئے ایک مہینے تک یا زیادہ مدت تک تو  وہ اس کے چارج نہیں  لیتے۔

جواب

آپ کا سوال واضح نہیں ہے، البتہ  ہماری معلومات کے مطابق بائننس(Binance)ایک پلیٹ فارم ہے جو کرپٹو اثاثہ (کرپٹو کرنسی، کرپٹو ٹوکن اور این ایف ٹی ) میں تجارت کا موقع فراہم کرتا ہے، اور  اس میں کام کرنے کے مختلف طریقہ ہیں، البتہ بائنینس ایپ پر کمائی کی تمام صورتوں کا تعلق کرپٹو ٹوکن یا کرپٹو کرنسی سے  ہے یعنی سرمایہ بھی کرپٹو کی شکل میں لگایا جاتا ہے اور نفع بھی کرپٹو کی شکل میں حاصل کیا جاتا ہے، کرپٹو کرنسی یا ٹوکن شرعا مال نہیں ہے   کیونکہ مال کے لیے چیز کا حقیقی اور مادی ہونا ضروری ہے جبکہ کرپٹو کرنسی یا ٹوکن    تقسیم شدہ کھاتے(distributed ledger)  میں ہندسوں کے  اندراج کا نام  ہے اور اسی اندراج کو کرنسی یا ٹوکن یا اثاثہ فرض کر لیا گیا ہے جس کا خارج میں حقیقی اور مادی  وجود نہیں  ہے لہذا جب بائنینس ایپ سے کمائی کی تمام صورتوں کا مدار کرپٹو کرنسی اور کرپٹو کوئن پر ہے جو کہ شرعا مال ہی نہیں ہے، نیز اس پلیٹ فارم میں اس کے علاوہ بھی خرابیاں ہیں مثلاً سود ، مستقبل میں فروخت وغیرہ، لہذا  اس پلیٹ فارم پر ہونے والے تمام معاملات  ناجائز ہیں، اور ان سے حاصل شدہ منافع بھی جائز نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(بطل بيع ما ليس بمال)....(والمعدوم كبيع حق التعلي) أي علو سقط؛ لأنه معدوم.

(قوله: والمعدوم كبيع حق التعلي) قال في الفتح: وإذا كان السفل لرجل وعلوه لآخر فسقطا أو سقط العلو وحده فباع صاحب العلو علوه لم يجز؛ لأن المبيع حينئذ ليس إلا حق التعلي، وحق التعلي ليس بمال؛ لأن المال عين يمكن إحرازها وإمساكها ولا هو حق متعلق بالمال بل هو حق متعلق بالهواء، وليس الهواء مالا يباع والمبيع لا بد أن يكون أحدهما."

(کتاب البیوع، باب البیع الفاسد ، 5/ 50، ط:  سعید)

تبیین الحقائق میں ہے:

"ووجه الفرق بين حق التعلي حيث لا يجوز بيعه باتفاق الروايات وبين حق المرور في الطريق حيث يجوز بيعه في رواية ابن سماعة أن حق المرور متعلق برقبة الأرض ورقبة الأرض مال وهو عين فما تعلق به كان له حكم المال وحق التعلي متعلق بالهواء والهواء ليس بعين مال ولا له حكم المال فلا يجوز."

(کتاب البیوع، باب البیع الفاسد، 4/ 52، ط: مطبعۃ الکبری الامیریة)

 الفقہ الاسلامی و ادلتہ میں ہے:

"والمراد بالمال عند الحنفية: ما يميل إليه الطبع ويمكن ادخاره لوقت الحاجة، والمالية تثبت بتمول الناس كافة أو بعضهم. وقد انتقد الأستاذ الزرقاء هذا التعريف، واستبدل به تعريفاً آخر، فقال: المال هو كل عين ذات قيمة مادية بين الناس . وعليه لا تعتبر المنافع والحقوق المحضة ما لاً عند الحنفية."

(القسم الثالث، فصل اول، مبحث اول، مطلب اول، 5/ 3305،ط: دار الفکر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144504100424

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں