بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیماری کی وجہ سے چہرے کا پردہ نہ کرنا


سوال

میری ایک جاننے والی خاتون مخلوط تعلیمی نظام میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں، جہاں انہیں چھ سات گھنٹے رہنا پڑتا ہے. وہ خود پردے کی بہت پابند ہیں. پر کچھ عرصے سے ان کے چہرے پر دانے اور الرجی شروع ہو گئی. ابتداء میں انہوں نے کپڑے سے نقاب کی بجائے فیس ماسک سے پردہ کیے رکھا، پر بتدریج یہ دانے بڑھتے جا رہے ہیں. اب انہوں نے ماسک لگانا بھی چھوڑ دیا ہے. بس عبایا پہن کر حجاب کیے رکھتی ہیں، محض چہرہ کھلا ہوتا ہے. تو پوچھنا یہ ہے کہ کیا بأمر مجبوری، بیماری کی وجہ سے یہ خاتون شرعی طور پر معذور سمجھی جائیں گی؟ کوئی گناہ تو نہیں ہو گا؟ شریعت میں بیماری کی وجہ سے پردہ نہ کرنے کی گنجائش اور اجازت ہے یا نہیں؟ 

جواب

واضح رہے کہ عورتوں کے لیے اصل حکم تو  گھروں میں رہنا ہی ہے،لیکن  اگر کبھی ضرورت پیش آجائے تو  بوقتِ ضرورت بقدرِ ضرورت مکمل پردے کی  شرط کے ساتھ  باہر نکلنے کی اجازت ہے، بایں طور کہ  سر تا پاؤں بشمول ہتھیلیوں  اور  خصوصًا   چہرے  کا پردہ  ہو، اس  لیے کہ باعثِ کشش اور ذریعۂ فتنہ عورت کا چہرہ ہی ہے، لیکن ایسے ادارے سے تعلیم حاصل کرنا جس میں مخلوط نظامِ تعلیم ہو شرعًا جائز نہیں ہے،اس لیے حصولِ علم کے لیے ایسے ادارے کا انتخاب کرنا چاہیے   جہاں  اختلاط نہ ہو ، خواہ وہ ادارہ  اس قدر مشہور نہ ہو۔

لہذا صورتِ  مسئولہ میں مذکورہ خاتون کا  ایک ایسےادارے میں  تعلیم حاصل کرنے کے لیے گھر  سے باہر جانا جس میں مخلوط نظامِ تعلیم قائم ہو اور اس کے لیے بیماری کی وجہ سے پردہ کا حکم ترک کرنا شرعًا  جائز نہیں ہے۔ایسی صورت میں ادارے  سے  بیماری  کی  وجہ  سے رخصت لے  لی  جائے یا آن لائن بغیر ویڈیو  کے  (صرف آڈیو  کے  ساتھ)  اسباق  میں شمولیت اختیار  کرلی  جائے۔

الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"(فإن ‌خاف ‌الشهوة) أو شك (امتنع نظره إلى وجهها) فحل النظر مقيد بعدم الشهوة وإلا فحرام وهذا في زمانهم، وأما في زماننا فمنع من الشابة قهستاني وغيره (إلا) النظر لا المس (لحاجة) كقاض وشاهد يحكم (ويشهد عليها) لف ونشر مرتب لا لتتحمل الشهادة في الأصح (وكذا مريد نكاحها) ولو عن شهوة بنية السنة لا قضاء الشهوة 

(وشرائها ومداواتها ينظر) الطبيب (إلى موضع مرضها بقدر الضرورة) إذ الضرورات تتقدر بقدرها وكذا نظر قابلة وختان .وينبغي أن يعلم امرأة تداويها لأن نظر الجنس إلى الجنس أخف."

کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی النظر والمس،ج6،ص370،ط؛سعید)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"پردہ نشین لڑکی کے لیے طبیہ کالج میں داخلہ

سوال(1055):میری ہمشیرہ مذہبی خاندان سے نہایت پاکیزہ اور اعلیٰ تعلیم یافتہ صوم وصلاۃ کی پابند اور غیر شادی شدہ خوبصورت اور پردہ نشین ہے جو بمبئی میں مقیم ہے،پھر یہ اعلیٰ تعلیم کے لیے طبیہ کالج اسپتال میں حکمت کے کورس میں داخلہ لینا چاہتی ہے۔طبیہ کالج میں اکثر اساتذہ مرد ہیں اور طلبہ لڑکے لڑکیاں دونوں تعلیم حاصل کرتے ہیں،لڑکیاں کلاس میں برقعہ اوڑھ کر بیٹھیں تو سختی نہیں ہے مگر نقاب نہیں ڈال سکتے،چہرہ کھلارہے گا۔بعد میں دوسال تک مریضوں پر عمل  تشخیص بھی کرائی جائے گی،جہاں مرد مریضوں کا معائنہ کرنا ضروری ہوگا کیونکہ یہ کورس کا عمل ضروری ہے۔مختصر یہ کہ کافی بے پردگی ہے اور لڑکی یہ کورس حاصل کرنے کے لیے مجبور نہیں ہے،مقصد صرف ڈاکٹری حاصل کرکے اچھی جگہ شادی کرنی ہے،یہ دنیاوی حسن حاصل کرنا ہے۔لہذا اس لڑکی کا کالج میں داخلہ لینا جائز ہے یا نہیں؟رہا شادی کا معاملہ تو وہ قسمتی معاملہ ہے جو صرف خدا کے ہاتھ میں ہے،یہ ہمارا عقیدہ ہے بس ترک اسباب نہ ہو۔

نیز یہ بھی ارشاد فرمادیں کہ گورنمنٹ کے میڈیکل کالج میں جہاں اکثر اساتذہ اور طلبہ غیر مسلم ہیں اور تعلیم مخلوط ہے وہاں بےپردگی کے ساتھ لڑکیوں کو تعلیم دلوانا جائز ہے یا نہیں؟اور اس کے دیگر کالجوں میں جہاں ایم اے وغیرہ کی ڈگری دی جاتی ہے،لڑکیوں کو تعلیم دلوانا جائز ہے یا نہیں؟

الجواب حامداً ومصلیاً:طریقہ مذکورہ پر داخلہ لے کر تعلیم اور ڈگری حاصل کرنے کی شرعًا اجازت نہیں ہے،یہی حکم دیگر کالجوں کا ہے۔لڑکوں اور لڑکیوں کی مخلوط تعلیم  اور بے پردہ ملاقات،بودوباش،مردا ساتذہ کا ان کو تعلیم دینا،ان کا مریض مردوں پر عمل تشخیص کرنا یہ سب چیز غلط ہے، ان  سے پورا پرہیز لازم ہے۔شادی کا معاملہ جس طرح خدا کے ہاتھ میں اسی طرح ہرمعاملہ خدا کے ہاتھ میں ہے۔فقط واللہ اعلم۔"

(کتاب العلم،ج3،ص386،ط؛فاروقیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402100513

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں