بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیماری کی وجہ سے زندگی میں روزہ کا فدیہ اداکرنا


سوال

کیافرماتےہیں علمائے کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ کے بارےمیں کہ ایک عورت جس کے ذمہ سات سالوں کے رمضان کے رزوں کی قضاء لازم ہو، اوراب وہ ان روزوں کی قضائی اداکرناچاہتی ہولیکن اس کی صحت اسے ساتھ نہ دیتی ہو، روزے نہ رکھ سکتی ہو،متعددبیماریوں کی وجہ سے اس کی صحت کافی متاثر ہوئی ہو، معدہ کامرض اکثراسے لاحق ہوتاہو۔ اب وہ پوچھتی ہے کہ کیابرئ الذمہ ہونے  کےلیےمیں اپنی زندگی میں ان روزوں کی قضاء فدیہ کی صورت میں اداکرسکتی ہوں یانہیں ؟ اورساتھ ساتھ میرایہ پکاعزم بھی ہےکہ اگراللہ تعالی نے مجھے صحیح صحت بخشی تومیں روزوں کی صورت میں بھی قضائی اداکرنے کی بھرپورکوشش کروں گی ۔

کیابرئ الذمہ ہونے کےلیے مذکوہ صورت اس عور ت کواختیارکرناکافی ہے یانہیں ؟امید ہےکہ مدلل جواب سے مستفید فرماکرممنون فرمائیں گے۔

جواب

واضح رہےکہ زندگی میں روزوں کے فدیہ کے بارے میں یہ حکم ہے کہ  اگر کوئی  شخص ایسا بوڑھا  ہوگیا کہ روزہ رکھنے کی طاقت  نہ رہی  اور آئندہ بھی روزہ رکھنے کی طاقت ہونے کی امید نہیں ، یا ایسا بیمار ہوا کہ  روزہ رکھنے کی طاقت نہ رہی اور آئندہ صحت یابی کی امید بھی نہیں ہے،  تو ایسی حالت میں زندگی میں روزہ کا فدیہ  دینا درست ہے۔

لہذاصورت مسئولہ میں اگرمذکورہ عورت بیماری کی وجہ سےقضاء روزے نہیں رکھ سکتی اورآئندہ بھی روزہ رکھنے کی طاقت کی امیدنہیں ،سردیوں کے دنوں  میں بھی امید نہیں ہےتووہ زندگی میں فدیہ اداکرسکتی ہے،  تاہم فدیہ ادا کرنے کے بعد  اگر موت سے پہلے  روزہ رکھنے کی طاقت حاصل ہو جائے اور وقت بھی ملے تو  ان روزوں کی قضا کرنا ضروری ہوگا،  فدیہ صدقۂ نافلہ سے تبدیل ہوجائے گا۔ اورایک روزے  کا فدیہ  ایک صدقۃ الفطر  کے برابر  یعنی پونے دو کلو گندم یا اس کی موجودہ قیمت ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وللشيخ الفاني العاجز عن الصوم الفطر ويفدي) وجوباً، ولو في أول الشهر وبلا تعدد فقير، كالفطرة لو موسراً.

(قوله وللشيخ الفاني) أي الذي فنيت قوته أو أشرف على الفناء، ولذا عرفوه بأنه الذي كل يوم في نقص إلى أن يموت نهر، ومثله ما في القهستاني عن الكرماني: المريض إذا تحقق اليأس من الصحة فعليه الفدية لكل يوم من المرض اهـ وكذا ما في البحر لو نذر صوم الأبد فضعف عن الصوم لاشتغاله بالمعيشة له أن يطعم ويفطر لأنه استيقن أنه لا يقدر على القضاء..............(قوله: وبلا تعدد فقير) أي بخلاف نحو كفارة اليمين للنص فيها على التعدد، فلو أعطى هنا مسكيناً صاعاً عن يومين جاز، لكن في البحر عن القنية: أن عن أبي يوسف فيه روايتين، وعند أبي حنيفة لايجزيه كما في كفارة اليمين، وعن أبي يوسف: لو أعطى نصف صاع من بر عن يوم واحد لمساكين يجوز، قال الحسن: وبه نأخذ اهـ ومثله في القهستاني". 

(ردالمحتار علي الدر المختار ، كتاب الصوم ، فصل في العوارض 2/ 427 ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100466

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں