بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیماری کے لیے تعویذ اور دم کرنے کا حکم


سوال

بیماری کے لیے تعویذ(دم) پڑھنا اورتعویذ  پہننا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ جو معمولات قرآن و حدیث سے ثابت ہوں یا جس دم اور تعویذ کے کلمات معلوم ہوں، ان میں خلافِ شرع کوئی کلمہ نہ ہو، نہ اس عمل میں کوئی خلافِ شرع بات پائی جائے،غیر اللہ سے مدد نہ مانگی گئی ہو ،تعویذ کے الفاظ سمجھ میں آتے ہوں اور اسے مؤثر بالذات نہ سمجھا جائے، تو ایسا دم  اور تعویذ جائز ہوگا۔

تعویذ علاج کا ایک طریقہ ہے جیساکہ دوا علاج کا ایک طریقہ ہے، جس طرح دوا کے بارے میں یہ عقیدہ ہونا چاہیے کہ شفا دینے والا اللہ ہے اسی طرح تعویذ کے بارے میں بھی یہ عقیدہ ہونا چاہیے کہ شفا دینے والا اللہ ہے، پھر تعویذ استعمال کرنے میں کوئی ممانعت نہیں، اور اگر کوئی شخص یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ تعویذ ہی شفا دینے والا ہے تو پھر یہ شرک ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے اور یہی حکم دوائی کا بھی ہے۔

صحیح مسلم میں ہے:

"عن ‌عائشة قالت: « كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا اشتكى منا إنسان مسحه بيمينه، ثم قال: أذهب الباس رب الناس، واشف أنت الشافي، لا شفاء إلا شفاؤك، شفاء لا يغادر سقما. فلما مرض رسول الله صلى الله عليه وسلم وثقل أخذت بيده لأصنع به نحو ما كان يصنع، فانتزع يده من يدي ثم قال: اللهم اغفر لي واجعلني مع الرفيق الأعلى. قالت: فذهبت أنظر فإذا هو قد قضى .»."

(‌‌كتاب الآداب، ‌‌باب استحباب رقية المريض، ج:7، ص:15، ط:دار  طوق النجاة)

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"و عن جابر قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الرقى فجاء آل عمرو بن حزم فقالوا: يا رسول الله إنه كانت عندنا رقية نرقي بها من العقرب وأنت نهيت عن الرقى فعرضوها عليه فقال: «ما أرى بها بأسا من استطاع منكم أن ينفع أخاه فلينفعه» . رواه مسلم.

و عن عوف بن مالك الأشجعي قال: كنا نرقي في الجاهلية فقلنا: يا رسول الله كيف ترى في ذلك؟ فقال: «اعرضوا علي رقاكم لا بأس بالرقى ما لم يكن فيه شرك» ." رواه مسلم."

(كتاب الطب و الرقي ، الفصل الأول: ج:2، ص:1280، ط : المكتب الاسلامي)

فتاوی شامی میں ہے:

"ولا بأس بالمعاذات إذا كتب فيها القرآن، أو أسماء الله تعالى، ويقال رقاه الراقي رقيا ورقية إذا عوذه ونفث في عوذته قالوا: إنما تكره العوذة إذا كانت بغير لسان العرب، ولا يدرى ما هو ولعله يدخله سحر أو كفر أو غير ذلك، وأما ما كان من القرآن أو شيء من الدعوات فلا بأس به اهـ قال الزيلعي: ثم الرتيمة قد تشتبه بالتميمة على بعض الناس: وهي خيط كان يربط في العنق أو في اليد في الجاهلية لدفع المضرة عن أنفسهم على زعمهم، وهو منهي عنه وذكر في حدود الإيمان أنه كفر اهـ. وفي الشلبي عن ابن الأثير: التمائم جمع تميمة وهي خرزات كانت العرب تعلقها على أولادهم يتقون بها العين في زعمهم، فأبطلها الإسلام. "

(کتاب الحظروالإباحة،فصل فی اللبس،ج:6،ص:363،ط:سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144504102462

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں