بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیمار کے لئے جانور ذبح کرنا


سوال

بیمار شخص کا صدقے کے جانور کو ہاتھ لگاکر دینا ضروری ہے یا صرف نیت ہی کافی ہے؟

جواب

واضح رہے کہ  حدیث شریف میں بیماریوں کا علاج صدقہ سے کرنے کی ترغیب آئی ہے ،صدقہ کرنے سے بیماری اور مصبیت دور اور ٹل جاتی ہے؛لہذا مریض کی صحت کی نیت سے خالص اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے لیے کوئی جانور ذبح کرنا جائز ہے۔لیکن یہ بات ملحوظ رہے کہ جانور کو بیمار کی شفایابی کی نیت سے ذبح کرنے میں بھی مقصود صدقہ  ہی ہو نا چاہیے،جانور کو ذبح کیے بغیر صدقہ کردینے سے بھی مقصد حاصل ہوجاتا ہے نیز جانور کے علاوہ کوئی اور چیز بھی صدقہ میں دی جاسکتی ہے۔ بعض عوام کا یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ بیماری یا مصیبت کو دورکرنے یا شفادینے میں جانور کا دخل ہے،اس میں مقصود صدقہ نہیں ہوتا بلکہ ذبح کرنے کی خصوصیت اور  خون بہانے کو مریض کی بیماری سے شفایاب کا فدیہ (بدلہ ،عوض)سمجھتی ہے ،مریض کے اردگرد جانور  کو گھماتے ہیں یا ہاتھ پھرواتے ہیں یہ نظریہ غلط ہے ،شریعت میں اس کا ثبوت نہیں ہے؛ لہذا ایسے عقیدے سے احتراز کرنا نہایت ضروری ہے، صحیح طریقہ پر صدقہ دیں۔

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"(‌من ‌عمل ‌عملا) أي من أتى بشيء من الطاعات أو بشيء من الأعمال الدنيوية والأخروية سواء كان محدثا أو سابقا على الأمر ليس عليه أمرنا، أي: وكان من صفته أنه ليس عليه إذننا بل أتى به على حسب هواه فهو رد.، أي: مردود غير مقبول، فهذه الرواية أعم."

(كتاب الإيمان ،باب الاعتصام بالكتاب والسنة ،ج:2،ص:222،ط:دارالفكر بيروت لبنان)

کنز العمال میں ہے:

"‌داووا ‌مرضاكم ‌بالصدقة و حصنوا أموالكم بالزكاة؛ فإنها تدفع عنكم الأعراض و الأمراض". الديلمي - عن ابن عمر."

 (حرف الطاء،كتاب الطب ، الباب الأول ،الفصل الأول في الترغيب،رقم الحديث : 28183 ،24/10 ، ط: مؤسسة  الرسالة)

امدادالفتاوی میں ہے:

سوال :چونکہ درمیان مردمان خواص وعوام این دیار رسم است کہ بوقت الحاق مرضے یا مصیبتے بر سر مریض یا عندالواقعہ بغرض صدقہ ردبلا جانور ذبح می کنند یا می گویند کہ یا الہ العالمین این مریض را شفادہ مابرائے خدا ذبح جانور خواہیم کرد چونکہ اندرین موقع خاص نزول رحم وکرم است نہ کہ غضب بر جانور آیا این چنین رسم جائز یا غیرجائز درزمان خیرالقرون بود یانبود ؟

الجواب :گوبودن این عادت درخیرالقرون بنظر نگذشتہ کہ مگر نظراً الی القواعد الکلیہ الشرعیۃ فی نفسہ اباحت دارد لیکن بسبب بعض عوارض بربدعت بودنش فتویٰ دادن معمول من است وآن عارض این کہ اکثر مردمان درین عمل نفس صدقہ را مقصود ونافع نمی پنداردن بلکہ خصوصیت ذبح واراقہ دم را فدیہ مریض می دانند واین امرغیرقیاسی است محتاج بنص ونص مفقود است ودلیل براین اعتقاد راضی نبودن ایشان است برتصدق بقدر قیمت جانور۔

(کتاب البدعات ،ج:5،:ص:313 ،ط:دارالعلوم کراچی )

قربانی کے مسائل کا انسائیکلوپیڈیا میں ہے:

"مریض کی صحت کی نیت سے خالص اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے لیے کوئی جانور ذبح کرنا جائز ہے، البتہ زندہ جانور کا صدقہ کردینا زیادہ بہترہے۔‘‘

(ص:۹۸،ط:بیت العمارکراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504101747

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں