بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیمہ کی شرعی حیثیت


سوال

 بیمہ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ جیسے آج کل موبائل کی بیمہ پالیسی بھی ہو رہی ہے، کیا یہ جائز ہے یا ناجائز؟ اور انسانی زندگی کی بیمہ پالیسی کے کیا احکام ہیں؟  برائے مہربانی قرآن وحدیث کی روشنی میں وضاحت فرما دیں!

جواب

  بیمہ کی مروّجہ  تمام شکلیں حرام  ہيں، چاہے  زندگی کا بیمہ ہو یا املاک  کا یاموبائل  کا، کیوں کہ اس میں سود اور جوا  پایا جاتا ہے، اور اسلام میں یہ دونوں حرام ہیں، ان کی حرمت قرآنِ کریم اور احاديثِ مباركه  کی واضح اور  قطعی نصوص سے ثابت  ہے۔

قرآن کریم میں ہے:

﴿وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا ( البقرة:275)

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (سورالبقرة:278)

﴿ يَآ أَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوآ اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُون﴾(المائدة: 90)

بخاري شريف  میں ہے:

 عن عون ابن أبي جحيفة عن أبيه : أنه اشترى غلاما حجاما فقال: إن النبي صلى الله عليه و سلم نهى عن ثمن الدم وثمن الكلب وكسب البغي ولعن آكل الربا وموكله والواشمة والمستوشمة والمصور.

(أخرجہ مسلم فی باب من لعن المصور  (5/ 2223) برقم (5617)،ط۔دار ابن كثير، بيروت،الطبعة الثالثة ، 1407 = 1987)

مسلم شریف میں ہے:

عن جابر قال: لعن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- آكل الربا وموكله وكاتبه وشاهديه وقال هم سواء.

(اخرجہ مسلم فی باب لعن آكل الربا ومؤكله (5/ 50) برقم (4177)،ط۔دار الجيل، بیروت)

السنن الکبری للبیہقی میں ہے:

عن فضالة بن عبيد صاحب النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: " كل قرض جر منفعة فهو وجه من وجوه الربا".

(أخرجه البيهقي في الكبرى في «باب كل قرض جر منفعة فهو ربا» (5/ 571) برقم (10933)، ط. دار الكتب العلمية، بيروت، الطبعة: الثالثة، 1424 هـ = 2003م.)

تفسیر بغوی میں ہے:

قوله تعالى:{ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ } بالحرام، يعني: بالربا والقمار والغصب والسرقة والخيانة ونحوها، وقيل: هو العقود الفاسدة.

(معالم التنزيل: سورة النساء (2/ 199)،ط. دار طيبة للنشر والتوزيع، الطبعة: الرابعة، 1417 = 1997 م)

فقط، والله أعلم


فتوی نمبر : 144202200561

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں