بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 ذو الحجة 1446ھ 24 جون 2025 ء

دارالافتاء

 

بیمار شخص کا علاج نہ کرواسکنے کی صورت میں اگر اس کی موت واقع ہوجائے تو کیا اس کے اولیاء قاتل شمار ہوں گے؟


سوال

ہم چار بھائی تھے، ہم میں سے ایک بیمار ہوا، ہم چار بھائی اکٹھے رہتے تھے، بیمار بھائی کی بیماری بہت خطرناک اور جان لیوا تھی، ہم نے اس کے علاج کی ہرطرح کی کوشش کی، بہت اچھی خدمت کی، لیکن اس کا علاج ایک ہسپتال میں تھوڑا سا ممکن تھا، مطلب کہ بیس20 فی صد چانس بنتاتھا ٹھیک ہونے کا اور اسی 80فی صد چانس ناکام ہونے کا تھا، اور اس علاج پر خرچ بہت آتا تھا جو کہ ہمارے پاس نقدی میں کبھی پورا نہیں ہوا،  البتہ اگر ہم گاڑی یا زیور فروخت کردیتے اور نقدی ملاتے تو کل ملاکر شاید ہم یہ پیسہ پورا کرسکتے تھے،  لیکن ہم نے ایسا نہیں کیا اور ہمارا بھائی اس دنیا سے چلاگیا،  تو کیا ہم اس کے گناہ گار ہیں یا نہیں؟ اس کے مرنے سے دس پندرہ دن پہلے ہم نے یہ فیصلہ بھی کیاتھا کہ ہم اس کا ہرحالت میں یہ مہنگا علاج بھی کرائیں گے اور اس کے لیے ہم گورنمنٹ اور باقی خیراتی اداروں سے مدد مانگیں گے، لیکن اللہ کا کرنا یہ تھا کہ وہ اس وقت تک نہ پہنچ سکا۔ اب میں ہر وقت اس ٹینشن میں ہوں  کہ ایسا نہ ہو کہ اللہ روزِ قیامت ہم سے اس بارے میں پوچھے۔

اس مہنگے علاج کے علاوہ ہم نے اپنے بھائی کا بہت خیال رکھا، جو ہم آسانی سے کرسکتے تھے۔ کہیں ہماری  اپنے بھائی کے اچھے علاج میں ناکامی ہمارے لیے قتل جیسا گناہ تو نہیں ہے؟ گاؤں کے سب لوگ ہماری تعریف کررہے  ہیں، لیکن ہمارے دل میں یہ شک ہے۔ ہمارے ڈاکٹر نے بھی اس مہنگے علاج کے بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا کہ یہ علاج کرالو،  شاید وہ ہماری مالی حالت یا کامیابی کی شرح کم ہونے کی وجہ سے۔ اس بھائی  کا علاج ایک قابل اور خدا ترس ڈاکٹر سے جاری تھا جس میں ہم نے کبھی کوئی کوتاہی نہیں کی تھی اور اس علاج پر بھی بہت خرچہ  ہوتاتھا جو میں اکیلا برداشت کرتا تھا؛ کیوں کہ میں ہی اکیلا سعودی میں جاب کرتا ہوں  اور ساتھ میں  میں اس کے مہنگے علاج کے لیے پیسہ جمع کرنے کی کوشش بھی کرتا تھا۔ 

جواب

واضح رہے کہ ہر شخص کو   اللہ تبارک وتعالیٰ نے اُس کی طاقت کے بقدر  مکلف بنایا ہے، انسان کسی چیز کی طاقت رکھتا ہو  اور پھر وہ اس ذمہ داری کو پورا نہ کرے، تو اس کے بارے میں باز پرس کی جائے گی، لیکن جو چیز انسان کے بس میں نہ ہو، وہ کام اگر وہ نہ کرسکے تو اس پر کوئی مؤاخذہ نہیں، قرآن پاک میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:

"لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْساً إِلاَّ وُسْعَهَا." (البقرة: ٢٨٦)

ترجمہ:  مکلف نہیں بناتا ہے، مگر اسی کا جو اس کی طاقت اور اختیار میں ہو۔(بیان القرآن)

نیز موت اللہ کی طرف سے مقرر کردہ وقت پر ہی آتی ہے، جس کا علم صرف الله كے پاس ہے،  جب انسان کی موت کا وقت آپہنچتا ہے، تو کوئی نہ کوئی بات انسان کی موت کا سبب بن جاتی ہے، پھر انسان اس وقت جتنی بھی کوشش کرے، مگر موت کو ایک لمحہ کے لیے بھی روک نہیں سکتا، قرآن مجید میں ارشاد ہے:

"وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَنْ تَمُوتَ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ كِتَابًا مُؤَجَّلًا."(آل عمران، 145)

ترجمہ: کسی شخص کو موت آنا ممکن نہیں بدوں حکم اور خدا للہ تعالیٰ کےاس طور سے  کہ اس میعاد معین لکھی  ہوئی رہتی ہے۔(بیان القرآن)

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں جب سائل اور اس کے بھائیوں نے اپنی مالی استطاعت کے بقدر اپنے بیمار بھائی کا علاج کروایا تھا، اور اس میں اپنی پوری طاقت صرف کردی تھی، لیکن علاج کرنے کے باوجود سائل کے بھائی کا انتقال ہوگیا، تو اس میں آپ کا کوئی قصور نہیں، نہ  ہی کوئی قتل کا گناہ ہے ،لہذا ان وساوس کی جانب توجہ نہ دیں، اور اپنے مرحوم بھائی کے لیے ایصال ثواب اور صدقہ کا خصوصی اہتمام کریں، اور اس کے لیے دعائیں کریں۔

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144607101065

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں