بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بلنگ کمپنی میں کام کرنا انشورنس کی اعانت کی وجہ سے ناجائز ہے


سوال

میں امریکہ میں ایک آفس میں ملازمت کرتا ہوں،  جس میں میڈیکل بلنگ کا کام کیا جاتا ہے، آپ حضرات کی ویب سائٹ پر اس کو ناجائز لکھا ہے، لیکن وجہ یہ لکھی کہ بلنگ کرنے والا انشورنس کمپنی سے پیسے وصول کر کے ڈاکٹر کو دیتا ہے ،فتوی نمبر :144208201064،  حالاں کہ میرے آفس میں اس طرح نہیں ہوتا، بلکہ انشورنس کمپنی ڈاکٹر ہی کو پیسے بھیجتی ہے، بلنگ میں صرف اس کا حساب رکھنا پڑتا ہے،  اس میں کام کی نوعیت یہ ہوتی ہے کہ ڈاکٹر نے جن جن مریضوں کو دیکھا ہے، اس کی رپورٹ تیار کر کے مریضوں کے انشورنس کمپنیوں کو بھیجی جاتی ہے،  اس عرض کے ساتھ کہ ڈاکٹر کی ان خدمات کا معاوضہ دیا جائے، پھر جب انشورنس کمپنیاں پیسے بھیج دیتی ہیں تو اس معاملہ کو لکھنا اور اس کا حساب رکھنا ہوتا ہے، اس کام کے کرنے پر اجرت ڈاکٹر کی طرف سے ملتی ہے، مریضوں کی رپورٹ بنانا کوئی آسان کام نہیں ہوتا، بلکہ انشورنس کمپنی سے پیسے وصول کرنے کے لیے خاص کوڈ مقرر ہوتے ہیں، ڈاکٹر کی خدمات کے مختلف درجات کے مختلف کوڈ ہوتے ہیں، جن کے اختلاف سے انشورنس سے ملنے والے پیسوں میں تفاوت ہوتا ہے، اسی طرح اس رپورٹ میں مریض کے بیماریاں بھی کوڈ میں لکھے جاتے ہیں، اور ڈاکٹر نے ان بیماریوں کا جو علاج لکھا ہے، اس کو بھی کوڈ کے ذریعہ لکھا جاتا ہے، اور اس خاص کوڈ میں رپورٹ تیار کر کے بھیجے بغیر انشورنس سے پیسے وصول نہیں ہوتے، اور یہ کوڈ صرف بلنگ کرنے والا جانتا ہے تو کیا یہ کام، انشورنس کے پیسے وصول کرنے کا سبب قریب ہونے کے ساتھ ساتھ سبب جالب و باعث شمار ہوکر، ناجائز ہوگا؟ یا مکروہِ تحریمی؟ یا مکروہِ تنزیہی؟ یا خلافِ اولی؟

جواب

واضح ہو کہ سوال میں دیے گئے جامعہ کے سابقہ فتوی کے مطابق  بلنگ کمپنی میں کام کرنے کی اجرت کے ناجائز ہونے کی وجہ انشورنس کمپنی کے لیے معاون بننا ہے۔ ذیل میں فتوی کی عبارت ملاحظہ ہو :

’’ہماری معلومات کے مطابق  میڈکل بلنگ کمپنی مریض اور انشورنس کمپنی کے درمیان ثالث کا کردار ادا کرتی ہے،  یعنی  ڈاکٹر  کی تجاویز (دوا اور ٹیسٹ وغیرہ) انشورنس کمپنی کی طرف منتقل کرتی ہے  اور  انشورنس کمپنی سے رقم وصول کر کے ڈاکٹر یا ہسپتال کو پہنچاتی ہے، گویا اس کمپنی کا کام انشورنس کی سہولت کاری ہے ؛  لہذا اس  کمپنی میں نوکری کرنے کی وجہ سے سائل بھی انشورنس کے حرام معاملے  کا سہولت کار  اور معاون بن جائے گا  اور  تنخواہ اس حرام میں معاونت کا عوض ہوگی جو کہ سائل کے لیے حلال نہیں ہوگی،سائل کو چاہیے کہ کوئی اور حلال ذریعہ آمدنی تلاش کرے۔‘‘

صورتِ مسئولہ میں سائل نے جو اپنی بلنگ کمپنی کے کام کرنے کا طریقہ بتایا، اس تفصیل کے مطابق بھی مذکورہ بلنگ کمپنی میں کام کرنے کی وجہ سے انشورنس کمپنی کے حرام معاملے میں حکماً اعانت لازم آرہی ہے،  اس لیے کہ انشورنس کمپنی کا کام بلنگ کمپنی کے کوڈ کے بغیر نہیں ہوگا اور انشورنس کمپنی ہی کے لیے مخصوص کوڈ تیار کیے جاتے ہیں  لہذا اس کے عوض جو تنخواہ ملے گی وہ حلال نہ ہوگی۔

جواہر الفقہ میں ہے :

۔۔۔کسی معصیت کی اعانت جو از روئے قرآن حرام ہے، وہ ہے جس میں معصیت  کا قصد و نیت حقیقتاً یا حکماً  شامل ہو۔ حقیقتاً یہ کہ دل ہی میں یہ ہو کہ اس کے ذریعہ عمل معصیت کیا جائے، یا یہ کہ صلب عقد میں احد المتعاقدین کی طرف سے اس معصیت کی تصریح آجائے اورحکماً یہ ہے کہ وہ چیز بجز معصیت کے کسی دوسرے کام میں آتی ہی نہ ہو، جیسے آلات معازف طبلہ سارنگی اور مختلف قسم کے آلات موسیقی، ان چیزوں کا بنانا اور بیچنا اگرچہ بقصد معصیت نہ ہو مگر حکماً وہ بھی قصد معصیت میں داخل ہیں۔۔۔

(ج7 ص510)

نیز واضح ہو کہ معصیت (گناہ) کی اعانت الگ چیز ہے اور گناہ کا سبب بننا الگ چیز ہے، مزکورہ صورت میں اعانت لازم آرہی ہے نہ کہ سبب بننا، اس کی تفصیل کے لیے جواہر الفقہ کی جلد نمبر 7 میں ’’ناجائز کاموں میں تعاون کی شرعی حیثیت‘‘ ملاحظہ کریں۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144312100779

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں