پانی کی ٹینکی میں بلی مرگئی ہےاور گرنے کا وقت معلوم نہیں ہے، مگر بلی پھولی اور پھٹی نہیں ہے تو کتنی نمازیں واپس پڑھنا لازمی ہیں؟
اور اگر اسی پانی سے سالن وغیرہ پکایا ہے تو اس کا کیا حکم ہے؟ اسکو کھایا جائے یا ضائع کیا جائے؟
صورت مسئولہ میں بلی پانی کی جس ٹینکی میں گرکر مری ہےوہ اگر 225 اسکوائر فٹ سے چھوٹی ہو تو اس میں بلی کے گرنے اور مرنے سے اس ٹینکی کا پانی ناپاک ہو گیا، اور چونکہ بلی گر کر مرنے کے بعد پھولی پھٹی نہیں ہے اور گرنے کا وقت معلوم بھی نہیں ہے ، لہذا جس وقت معلوم ہوا تو اس سے پہلے کی ایک دن ایک رات کی نمازوں کا اعادہ لازم ہےاور اس پانی سے کھانا پکاکر اگر کھا لیا گیا تو اس کا کوئی کفارہ نہیں، اور جو کھانا موجود ہو اس کو ضائع کردیا جائے۔
اور اگر ٹینکی کا رقبہ 225 اسکوائر فٹ سے زیادہ ہو تو بڑے حوض کی مانند اس کے پانی کا حکم جاری پانی والا ہوگا، یعنی جب تک اس پانی میں رنگ ، بو یا ذائقہ میں سے کسی بھی ایک وصف میں اس نجاست کا اثر ظاہر نہ ہو تو پانی ناپاک نہیں کہلائے گا ، لہذا یسی صورت میں نہ نمازوں کا اعادہ ہے اور نہ ہی کھانے میں کوئی مضائقہ ہے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے :
"وإذا وجد في البئر فأرة أو غيرها ولايدرى متى وقعت ولم تنتفخ أعادوا صلاة يوم وليلة إذا كانوا توضئوا منها وغسلوا كل شيء أصابه ماؤها وإن كانت قد انتفخت أو تفسخت أعادوا صلاة ثلاثة أيام ولياليها وهذا عند أبي حنيفة رحمه الله".
(1/264)
قال في التنویر:
"إذا وقعت نجاسة في بئر دون القدر الکثیر، أو مات فیها حیوان دموي، وانتفخ أو تفسخ ینزح کل مائها بعد إخراجه".
(التنویر مع الشامي، باب المیاه، فصل في البئر، ۱/ ۲۱۱-۲۱۲)
المحيط البرهاني للإمام برهان الدين ابن مازة (1/ 87):
"يجب أن يعلم أن الماء الراكد إذا كان كثيراً فهو بمنزلة الماء الجاري لا يتنجس جميعه بوقوع النجاسة في طرف منه إلا أن يتغير لونه أو طعمه أو ريحه. على هذا اتفق العلماء."
فتاوی شامی میں ہے:
"ویحکم بنجاستها مغلظة من وقت الوقوع إن علم، وإلا منذ ثلاثة أیام بلیالیها، إن انتفخ أو تفسخ استحساناً".
(الدر المختار مع رد المحتار، فصل في البئر، ۱/ ۲۱۸)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144307100150
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن