بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بلی کی خرید و فروخت کا حکم


سوال

 ایک ویب سائٹ پہ یہ حدیث مبارکہ پڑھی ہے کہ بلی اور کتے کی تجارت نہیں کرنی چاہیے۔ اس سلسلے میں کچھ تفصیل سے بیان کردیجیے۔ ہماری ایک بہن نے گھر میں بلی پالی ہوئی ہے جو انہوں نے کسی سے خریدی تھی جو یہی بزنس کرتے ہیں اور وہ خود بھی اگر کسی کو اس بلی کے بچے فروخت کرنا چاہیں تو یہ غلط ہوا۔ ہمیں اس حدیث کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا۔حال ہی میں معلوم ہوا۔

جواب

صورت مسئولہ میں بلی پالناجائز ہے اور اس کی خرید و فروخت کرنا بھی جائز ہے اور اس کی رقم استعمال کرنا بھی جائز ہے۔

مرقاۃ المفاتیح میں ہے

"(وعن جابر أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - نهى عن ثمن الكلب والسنور) : بتشديد السين المكسورة والنون المفتوحة وهو الهر، في شرح السنة: هذا محمول على ما لا ينفع، أو على أنه نهي تنزيه لكي يعتاد الناس هبته وإعارته والسماحة به، كما هو الغالب، فإن كان نافعا وباعه صح البيع وكان ثمنه حلالا، هذا مذهب الجمهور إلا ما حكي عن أبي هريرة وجماعة من التابعين - رضوان الله تعالى عليهم أجمعين، واحتجوا بالحديث، وأما ما ذكره الخطابي وابن عبد البر أن الحديث ضعيف فليس كما قالا، بل هو صحيح (رواه مسلم)."

(کتاب البیوع , باب الکسب و طلب الحلال جلد 5 ص: 1897 ط: دارالفکر)

فتاوی شامی میں ہے:


"لكن في الخانية:بيع الكلب المعلم عندنا جائز، وكذا السنور، وسباع الوحش والطير جائز معلما أو غير معلم."

(کتاب البیوع , باب خیار العیب جلد 5 ص: 48 , 49 ط: دارالفکر)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

سوال:" بندر ، بلی ، چوہا وغیرہ جیسے حرام جانوروں کی تجارت کرکے روزی کمانا کیسا ہے؟

جواب: اگر ان حرام جانوروں کی کھال ، ہڈی وغیرہ کار آمد ہوں ، یا ان سے دوا بنائی جائے تو ان کی خرید و فروخت کرنا جائز ہے۔"

(کتاب البیوع ، باب البیع الصحیح جلد ۱۶ ص:۳۲ ط:دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144411100046

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں