بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بلی فروخت کرنے کا حکم


سوال

میرے  ایک دوست کے پاس پرشین نسل کی بلیوں کا جوڑا ہے، جن کے بچے وہ فروخت کیا کرتا تھا، کچھ عرصہ قبل کسی  نے اس سے کہا کہ بلیوں کی خرید و فروخت کرنا جائز نہیں ہے۔ ایک تو اس کے بارے میں بتا دیں۔ دوسرا اگر واقعی ایسا ہے تو کیا ایسا ممکن ہے کہ ان کے بچوں کو بیچنے سے جو رقم حاصل ہو وہ صرف ان بلیوں کے کھانے پینے یا ان کے دوا دارو کے لیے  استعمال کی جائے اس صورت میں بیچنا جائز ہوگا؟

جواب

بلی  پالنا جائزہے،نیز  بلی فروخت کرنا بھی جائز ہے، شرط یہ ہےکہ اسے تکلیف نہ دی جائے ،اور اس کےکھاناپانی کاخیال رکھاجائے۔

بلی فروخت کرنے کی صورت میں حاصل ہونے والی رقم خود استعمال کرنا یا ان پر ہی خرچ کرنا جیسا کہ سوال میں درج ہے دونوں صورتیں جائز ہیں۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 68):

’’لكن في الخانية: بيع الكلب المعلم عندنا جائز، وكذا السنور، وسباع الوحش والطير جائز معلماً أو غير معلم‘‘.

الفتاوى الهندية (3/ 114):

’’بيع الكلب المعلم عندنا جائز، وكذلك بيع السنور وسباع الوحش والطير جائز عندنا معلماً كان أو لم يكن، كذا في فتاوى قاضي خان‘‘.

الفتاوى الهندية (3/ 114):

’’وبيع الكلب غير المعلم يجوز إذا كان قابلاً للتعليم وإلا فلا، وهو الصحيح، كذا في جواهر الأخلاطي‘‘.

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207201342

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں