بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بلی کو مارنے کا حکم


سوال

میرے پڑوس میں ایک محترمہ رہتی ہیں جن  کی بچیوں نےمنع کرنے کے باوجود بہت ساری   بلّیاں پال رکھی ہیں،  وہ   بلّیاں محترمہ کو کام کرنے میں مشکلات کا سبب بنتی ہیں؛  لہٰذا محترمہ   بلّیوں کو کسی طرح مار دینا چاہتی ہیں ( زہر سے)،  کیا یہ درست ہے؟

جواب

واضح رہے کہ عام حالات میں بلی  یا کسی بھی جانور کو ستانا درست نہیں، بلکہ ایسا کرنا گناہ کا کام ہے؛  لہذا صورتِ  مسئولہ میں اگر کسی او ر طریقہ سے ان     بلّیوں سے جان  چھڑانا ممکن ہو،  مثلاً  کسی دور جگہ چھوڑدینا وغیرہ تو  یہ طریقہ اختیار کیا جائے،  اگر کوئی اور صورت ممکن نہ ہو اور  بلّیاں تنگ کررہی ہوں  تو ان  کو مارا جاسکتا ہے،  لیکن اس میں اس بات کا خیال رکھنا نہایت ضروری ہے کہ ان  کو اس طریقے سے مارا جائے کہ ان کو زیادہ تکلیف نہ ہو۔

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"الهرة إذا كانت مؤذيةً لاتضرب و لاتعرك أذنها بل تذبح بسكين حادٍّ، كذا في الوجيز للكردري."

( کتاب الکراهية، الباب الحادي والعشرون فيما يسع من جراحات بني آدم والحيوانات، و قتل الحيوانات و مالا يسع من ذالك، ج:5، ص: 361، ط: مکتبہ ما جدیہ)

فتویٰ شامی میں ہے:

"وجاز قتل ما يضر منها ككلب عقور وهرة) تضر (ويذبحها) أي الهرة (ذبحاً) ولايضر بها؛ لأنه لايفيد، ولايحرقها.

(قوله: وهرة تضر) كما إذا كانت تأكل الحمام والدجاج، زيلعي"

(مسائل شتى، ج:6، ص:752، ط: سعید)

فقط و الله اعلم


فتوی نمبر : 144410100760

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں