بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بلڈنگ گفٹ کرکے مکمل مالکانہ قبضہ دینا


سوال

میری ایک پھوپھی تھی، جس نے اپنی ایک بلڈنگ میرے والد کو گفٹ کردی اور مکمل  قبضہ بھی دے دیا ، اس کے بعد کرایہ بھی ہم وصول کرتے تھے ، اور وہ بلڈنگ ہمارے والد کے نام ٹرانسفر بھی ہوگئی تھی  ، اب میری دوسری پھوپھی  کے بیٹے اور کزن یہ دعوی کرتے ہیں کہ اس گفٹ کو کینسل کردیاجائے اور بلڈنگ  میں سب کوحصہ دیا جائے ، کیا ان کا یہ دعوی درست ہے؟یا اس بلڈنگ کے مالک اب میرے والد ہیں۔

وضاحت: جب پھوپھی نے مذکورہ بلڈنگ میرے والد کو گفٹ کی  تو اس وقت بلڈنگ میں کرایہ دار تھےتو بلڈنگ کے تمام کاغذات میرے والد کے نام کرائے گئے اور کرایہ میرے والد کے نام آتارہا اور کرایہ ہم وصول کرتے رہے ، اس کےبعد ہم نے تمام کرایہ داروں سے بلڈنگ کو خالی کروادیااور پوری بلڈنگ پرقبضہ حاصل کرلیا، اس کے بعد ایک رات میری دوسری پھوپھی آئی اور انہوں نے ایک فلیٹ  کا تالا توڑکر وہیں رہائش  اختیار کی ، حالاں کہ وہ پھوپھی جس نے ہمیں یہ بلڈنگ گفٹ کی تھی وہ حیات تھیں اور انہوں نے مذکورہ بلڈنگ ہمیں گفٹ کی تھی۔

جواب

 واضح رہے کہ ہبہ (گفٹ )کے درست ہونے کے لیے ضروری ہے کہ  واہب ( ہبہ کرنے  والا) موہوبہ چیز (جو چیز ہبہ کی جائے) كومکمل طورپر فارغ کرکے  موہوب  لہ (جس کو ہبہ کیا جائے ) کو مالکانہ قبضہ اورتصرف کااختیاردے،صورتِ مسئولہ میں  چوں کہ مذکورہ بلڈنگ گفٹ کرتے وقت کرایہ پر تھی ،لہذاگفٹ درست نہیں ہوا،تاہم اگر سائل کا بیان واقعۃً درست ہےکہ سائل کے والد  نے  پھوپھی کی اجازت ورضامندی سے تمام کرایہ داروں سے بلڈنگ خالی کرواکر پوری بلڈنگ پرقبضہ حاصل کرلیا  تھا ،تو مذکورہ بلڈنگ ان  کے والدکی ملکیت ہوگئی،  اس کے بعد دوسری پھوپھی  کے بیٹوں  اور کزن  کا یہ دعوی کرنا  کہ اس گفٹ کو کینسل کردیاجائے اور بلڈنگ  میں سب کوحصہ دیا جائے شرعا درست نہیں ،نیز دوسری پھوپھی کا سائل کے والد کی اجازت کے بغیر ایک فلیٹ کا تالا توڑ کر وہیں رہائش اختیار کرنا بھی شرعا درست نہیں۔

در مختار مىں  ہے:

"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل."

(كتاب الهبة:5/ 690،ط:سعيد)

وفيه أيضًا:

"لايجوز التصرف في مال غيره بلا إذنه."

(كتاب الغصب:6/ 200،ط:سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"و القبض الذي يتعلق به تمام الهبة وثبوت حكمها القبض بإذن المالك، والإذن تارة يثبت نصا وصريحا وتارة يثبت دلالة فالصريح أن يقول: اقبضه إذا كان الموهوب حاضرا في المجلس ويقول اذهب واقبضه إذا كان غائبا عن المجلس ثم إذا كان الموهوب حاضرا، وقال له الواهب: اقبضه فقبضه في المجلس أو بعد الافتراق عن المجلس صح قبضه وملكه قياسًا و استحسانًا، و لو نهاه عن القبض بعد الهبة لا يصح قبضه لا في المجلس ولا بعد الافتراق عن المجلس، و إن لم يأذن له بالقبض صريحًا ولم ينهه عنه إن قبضه في المجلس صح قبضه استحسانًا لا قياسًا، وإن قبضه بعد الافتراق عن المجلس لايصح قبضه قياسًا و استحسانًا، ولو كان الموهوب غائبا فذهب وقبض: إن كان القبض بإذن الواهب جاز استحسانًا لا قياسًا، و إن كان بغير إذنه لايجوز قياسًا و استحسانًا، هكذا في الذخيرة."

 (كتاب الهبة، الباب الثاني فيما يجوز من الهبة و ما لايجوز:4/ 377،ط:دار الفكر)

وفيه أيضا:

"و منها: أن يكون الموهوب مقبوضًا حتى لايثبت الملك للموهوب له قبل القبض و أن يكون الموهوب مقسومًا إذا كان مما يحتمل القسمة و أن يكون الموهوب متميزًا عن غير الموهوب و لايكون متصلًا و لا مشغولًا بغير الموهوب."

(كتاب الهبة، الباب الأول تفسير الهبة وركنها:4/ 374،ط:دار الفكر)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144305100863

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں