بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بلڈر سے فلور تعمیر کروا کر نفع کے ساتھ فروخت کرنے کاحکم


سوال

میرا ایک بلڈرسے معاہدہ ہواکہ آپ مجھے ایک فلیٹ  میں  فلور بنا کر دیں، اور 20 لاکھ کا معاہدہ ہوا ،اور مكمل طور پر همارا معاهده اور ايگريمنٹ طے هو گيا ، بلڈر نے کام شروع کیا اور مجھ سے پانچ پانچ لاکھ روپے کر کے 15 لاکھ روپے وصول کر لیے،5 لاکھ روپے میں نے اس کو ابھی دینے ہیں ، جب چھت وغیرہ ڈال كر   تيار كر ديا، تو مجھ سے رابطہ کیا کہ  آپ والا  فلورجو میں نے تعمیر کر دیا ہے، 28 لاکھ روپے میں کوئی آدمی خریدنا چاہ رہا ہے،میں نے اس کو اجازت  دےدی، اور اس نے 28 لاکھ روپے میں میرا فلور جو کہ ایگریمنٹ اور کاغذات  میرے پاس موجود تھے، اس نے دوسرے آدمی کو 28 لاکھ روپے میں بیچ دیا ،میں  نے اس فلور میں رہائش ابھی اختیار نہیں کی تھی لیکن ایگریمنٹ میرے پاس موجود تھا ،بعد میں جب باقی ان جیسے  بلڈرز سے اس سلسلے میں بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ 20 لاکھ روپے تو آپ کے ہی ہیں، لیکن آپ بغیر قبضے کے آگے بیچ کر جو نفع کما رہے ہیں یہ سود کے زمرے میں آتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا یہ معاملہ سودی ہے یا نہیں ؟اور جو میں 8 لاکھ روپے نفع لے رہا ہوں یہ درست ہے یا نہیں ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں چوں کہ  مذکورہ فلور مکمل طور پر تیار ہو گیا تھا ،اور اس کے بعد بلڈر نے سائل سے اجازت لے کر مذکورہ فلور نفع کے ساتھ آگے بیچا ہے ،اس لیے مذکورہ معاملہ درست ہے ،اور سائل کے لیے یہ نفع استعمال کرنا درست ہے ۔

فتاویٰ شامی میں ہے :

"(‌صح ‌بيع عقار لا يخشى هلاكه قبل قبضه) من بائعه لعدم الغرر لندرة هلاك العقار."

(كتاب البيوع،‌‌باب المرابحة والتولية،ج:5 ،ص:147 ،ط:سعيد)

شرح المجلہ لخالد الاتاسی میں ہے:

"للمشتري أن يبيع المبيع لآخر قبل قبضه إن كان عقاراً.......وإن كان منقولاّ فلا."

(کتاب البیوع، الباب الرابع فی بیان المسایل المعلقۃ بالتصرف۔۔۔الخ، الفصل الاول، ج: 2، صفحہ: 173 و174، المادۃ: 153، ط:  مطبعۃ حمص) 

البحر الرائق میں ہے:

"(صح ‌بيع ‌العقار قبل قبضه)."

(كتاب البيع،فصل في بيان التصرف في المبيع والثمن قبل قبضه،6/ 126،ط:دار الكتاب الإسلامي)

شرح المجلہ میں ہے:

"البیع مع تأجیل الثمن و تقسیطه صحیح ...  یلزم أن تکون المدة معلومةً في البیع بالتأجیل والتقسیط". 

 (2 /166، المادۃ: 245، 246، ط: رشیدیة)

تبين الحقائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

 "لايجوز بيع المنقول قبل القبض؛ لما روينا ولقوله عليه الصلاة والسلام: «إذا ابتعت طعامًا فلاتبعه حتى تستوفيه» رواه مسلم وأحمد ولأن فيه غرر انفساخ العقد على اعتبار الهلاك قبل القبض؛ لأنه إذا هلك المبيع قبل القبض ينفسخ العقد فيتبين أنه باع ما لا يملك والغرر حرام لما روينا."

 

( کتاب البیوع، باب التولیۃ، فصل بيع العقار قبل قبضه، ج: 4، صفحہ: 80، ط: المطبعة الكبرى الأميرية) 

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144507101666

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں