ہمارا ایک پروجیکٹ جو کہ کمرشل پلاٹ نمبر 5-G (سابقہ سیفرون بینکوئیٹ والی جگہ) رقبہ 1875 مربع گز، واقع بلاک 8، مین کلفٹن روڈ (خیابان اقبال) کراچی پر تعمیر ہورہا ہے، جس میں ہم دو لیول پر یعنی Lower Ground اور Ground کی دکانوں کی مارکیٹ، بیچ میں آٹھ منزلہ عمارت بمع کار پارکنگ، مسجد، مکینیکل فلور وغیرہ، اور پھر پندرہ منزلہ آفسس پر تعمیری کام کررہے ہیں، اس طرح دیگر منزلیں ملاکر مجموعی طور پر یہ بلڈنگ پچیس منزلہ بنے گی۔ ان شاء اللہ
اس پروجیکٹ کو ہم نے اپنے دیگر پارٹنر کے ساتھ جولائی 2024ء میں شروع کیا تھا، جس پر لوگوں نے دلچسپی لیتے ہوئے اس پروجیکٹ میں دوکانوں اور آفس کی بکنگز کروائی ہیں۔ مروجہ پیمنٹ پلان کے تحت جس میں %20 شروع کے چار مہینوں میں اور بقایا%80 چار سال کی اقساط میں لیا جائے گا۔ پروجیکٹ سے حاصل ہونے والی رقم کو ہم نے تعمیری اخراجات کے ساتھ ساتھ آپس میں اپنے اپنے حصّے کے مطابق تقسیم بھی کیا ہے۔ اس پروجیکٹ میں %29 ہمارا حصّہ ہے۔ ہم نے جو رقم ابھی تک لی ہیں اس سے اپنے اوپر لازم قرض کی ادائیگی کی ہیں، اور گھر یلو اخراجات کے لیے بھی اس رقم میں سے استعمال کرتے ہیں۔
آپ سے ہمیں اس پروجیکٹ کی زکوٰۃ کی ادائیگی کا طریقہ معلوم کرنا ہے، تا کہ ہمیں اس بارے میں رہنمائی مل سکے۔ برائے مہربانی اس طرح کے پروجیکٹ کی بکنگ کی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے جواب مرحمت فرمائیں۔
واضح رہے کہ بلڈنگ کی تعمیر کے دوران بلڈر حضرات تعمیر شدہ فلیٹوں/ دکان یا آفسز وغیرہ کی خریداری کے خواہش مند حضرات سے جو معاملہ ”بُکنگ“کے نام پر کرتے ہیں وہ معاملہ شریعت کی رو سے”بیع“ یعنی خرید و فروخت کا معاملہ نہیں، بلکہ ”وعدۂ بیع“ کہلاتا ہے؛ کیوں کہ ”بیع“ کے درست ہونے کے لیے ”مبیع“ کا فروختگی کے وقت موجود ہونا ضروری ہے، جبکہ اس معاملہ میں بُکنگ کے وقت اصل مبیع یعنی تعمیر شدہ فلیٹ/ دکان یا آفسز موجود نہیں ہوتے، بلکہ بعد از تعمیر اسے خریدنے کا وعدہ ہوتا ہے، چنانچہ جب بُک کرائے گئے فلیٹ/ دکان یا آفسز وغیرہ کی تعمیر شروع ہوجاتی ہے اور اس کا سٹرکچر (خاکہ، ڈھانچہ) کھڑا ہوجاتاہے اور بلڈر اور خریدار باقاعدہ ”سیل ایگریمنٹ“ کے ذریعے سودا کرتے ہیں تو اس وقت حقیقی بیع منعقد ہوجاتی ہے اور بُک کرانے والے اس کے مالک ہوجاتے ہیں۔
نیز بلڈر حضرات اپنے کلائنٹ سے بکنگ کی مد میں جو رقم وصول کرتے ہیں وہ رقم ان کے پاس ابتداءً امانت اور انتہاءً قرض ہوتی ہے، اور جب مطلوبہ فلیٹ/ دکان یا آفس کا سٹرکچر کھڑا ہوجائے تو خریداری کا معاملہ ہوتا ہے اور بلڈر رقم کا مالک بن جاتا ہے اور فلیٹ بُک کرانے والے کی ملکیت ہوجاتا ہے۔
اسی طرح اگر کسی کاروبار یا پروجیکٹ میں ایک سے زائد افراد شریک ہیں تو ہر ایک اپنے اپنے حصّے کے بقدر زکوٰۃ اداکریں گے، یعنی کاروبار یا پروجیکٹ کی موجودہ مارکیٹ ویلیو کے حساب سے اس میں سے اپنے حصّے کو اپنی دیگر مجموعی مالیت میں شامل کرکے زکوٰۃ اداکریں گے، البتہ اگر تمام شرکاء باہمی رضامندی سے اپنے کاروبار یا پروجیکٹ کی زکوٰۃ مشترکہ طور پر اکھٹے ادا کرنا چاہیں تو شرعًا ادا کر سکتے ہیں، بشرطیکہ تمام شرکاء مستقل طور پر صاحبِ نصاب ہوں۔
لہٰذا مذکورہ بالا تفصیلات کی روشنی میں صورتِ مسئولہ میں جب بلڈنگ اپنے تعمیری مراحل میں ہے اور تمام شرکاء اس پروجیکٹ کی زکوٰۃ مشترکہ طور پر ادا کرنا چاہتے ہیں تو آپ حضرات کے لیے زکوٰۃ کا حساب کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنے زکوٰۃ کا سال مکمل ہونے پر اپنے پاس موجود نقدی اور اس پروجیکٹ کے حوالے سے دیگر قابلِ زکوٰۃ خام اشیاء (مثلاً: سریا، سمیٹ، بجری وغیرہ) کی موجودہ مالیت، لوگوں سے جو رقم تعمیر شدہ فلیٹ اور دکانوں کی بُکنگ کے عوض وصول کرنی ہے وہ رقوم، اور تعمیر شدہ فلیٹس و دکانوں میں سے جتنے فلیٹس اور دکانیں اب تک بُک نہیں ہوئیں اور کمپنی یا پروجیکٹ بنانے والوں کی ملکیت میں ہیں جنہیں آئندہ بیچا جائے گا، ان غیر بُک شدہ فلیٹس اور دکانوں کی موجودہ مالیت کو اور پیچھے ذکر کی گئیں تمام رقوم کو جمع کریں، پھر اس مجموعہ میں سے قرض اور دیگر واجب الاداء دیون (مثلاً: سیمنٹ، بجری، سریا وغیرہ اگر اُدھار پر خریدی گئی ہوں اور رقم کی ادائیگی باقی ہو، ان سب) کو منہا کریں، پھر اس جمع و منہا کے عمل کے بعد جو بھی نتیجہ آئے اس کے مطابق چالیسواں حصّہ (یعنی ڈھائی فیصد)زکوٰۃ کے طور پر ادا کریں۔
باقی جو فلیٹس یا دکانیں اب تک تعمیر نہیں ہوئی ہیں، بلکہ آئندہ تعمیر ہوں گی، اس پر زکوٰۃ نہیں ہے، لیکن غیر تعمیر شدہ فلیٹ یا دکانوں میں سے جس کی بُکنگ ہوچکی ہے اور بُکنگ کے عوض رقم بھی وصول ہوچکی ہے تو وہ رقم بلڈر حضرات پر قرض ہوگی، مجموعی رقم میں سے اسے منہا کیا جائے گا، مگر مستقبل کے اخراجات جو کہ اس بلڈنگ پر آئندہ کیے جائیں گے خواہ تعمیر شدہ فلیٹس و دکانوں پر ہوں یا غیر تعمیر شدہ فلیٹ و دکان پر وہ اخراجات اس میں سے منہا نہیں ہوں گے۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"وأما الذي يرجع إلى المعقود عليه فأنواع (منها) : أن يكون موجودا فلا ينعقد بيع المعدوم."
(كتاب البيوع، فصل في الشرط الذي يرجع إلى المعقود عليه، ج:5، ص:138، ط:ايج ايم سعيد)
ملتقی الأبحر میں ہے:
"و شرط وجوبها العقل و البلوغ و الإسلام و الحرية و ملك نصاب حولي فارغ عن الدين و حاجته الأصلية نام و لو تقديرا ملكا تاما."
(کتاب الزکاۃ، ص:285، ط:دار الکتب العلمیة بیروت)
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
"الزكاة واجبة في عروض التجارة كائنةً ما كانت إذا بلغت قيمتها نصابًا من الورق و الذهب، كذا في الهداية."
( کتاب الزکاۃ، الباب الثالث، الفصل الثالث في زکاۃ العروض، ج:1، ص:179، ط:المكتبة الرشیدية كوئته)
فتح القدیر میں ہے:
"(و من كان عليه دين يحيط بماله فلا زكاة عليه) و قال الشافعي: تجب لتحقق السبب و هو ملك نصاب تام. و لنا أنه مشغول بحاجته الأصلية فاعتبر معدومًا كالماء المستحق بالعطش و ثياب البذلة و المهنة (و إن كان ماله أكثر من دينه زكى الفاضل إذا بلغ نصابًا) لفراغه عن الحاجة الأصلية و المراد به دين له مطالب من جهة العباد."
(كتاب الزكاة، ج:2، ص:160، ط:دار الفكر بيروت)
البحر الرائق میں ہے:
"وفي الخانية أيضا رجل اشترى عبدا للتجارة يساوي مائتي درهم ونقد الثمن، ولم يقبض العبد حتى حال الحول فمات العبد عند البائع كان على بائع العبد زكاة المائتين وكذلك على المشتري أما على البائع فلأنه ملك الثمن وحال الحول عليه عنده، وأما على المشتري فلأن العبد كان للتجارة وبموته عند البائع انفسخ البيع والمشتري أخذ عوض العبد مائتي درهم فإن كانت قيمة العبد مائة كان على البائع زكاة المائتين لأنه ملك الثمن ومضى عليه الحول عنده وبانفساخ البيع لحقه دين بعد الحول فلا تسقط عنه زكاة المائتين، ولا زكاة على المشتري؛ لأن الثمن زال عن ملكه إلى البائع فلم يملك المائتين حولا كاملا وبانفساخ البيع استفاد المائتين بعد الحول فلا تجب عليه الزكاة."
(كتاب الزكاة، باب شروط أداالزكاة، ج:2، ص:219، ط: دار الكتاب الإسلامي القاهرة)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(ولا تجب) الزكاة عندنا (في نصاب) مشترك (من سائمة) ومال تجارة (وإن صحت الخلطة فيه) باتحاد أسباب الإسامة التسعة التي يجمعها أوص من يشفع وبيانه في شروح المجمع وإن تعدد النصاب تجب إجماعا، ويتراجعان بالحصص، وبيانه في الحاوي، فإن بلغ نصيب أحدهما نصابا زكاه دون الآخر.
وفي الرد: (قوله: في نصاب مشترك) المراد أن يكون بلوغه النصاب بسبب الاشتراك وضم أحد المالين إلى الآخر بحيث لا يبلغ مال كل منها بانفراده نصابا.....
وأما شروطها في مال التجارة فمذكورة في كتب الشافعية: منها أن لا يتميز الدكان والحارث ومكان الحفظ كخزانة (قوله: وإن تعدد النصاب) أي بحيث يبلغ قبل الضم مال كل واحد بانفراده نصابا فإنه يجب حينئذ على كل منهما زكاة نصابه، فإذا أخذ الساعي زكاة النصابين من المالين، فإن تساويا فلا رجوع لأحدهما على الآخر. كما لو كان ثمانين شاة لكل منهما أربعون وأخذ الساعي منهما شاتين وإلا تراجعا.... (قوله فإن بلغ إلخ) كما لو كانت ثمانون شاة بين رجلين أثلاثا فأخذ المصدق منها شاة لزكاة صاحب الثلثين فلصاحب الثلث أن يرجع عليه بقيمة الثلث؛ لأنه لا زكاة عليه محيط."
(كتاب الزكاة، باب زكاة المال، ج:2، ص:304، ط:ايج ايم سعيد)
فقط واللہ علم
فتوی نمبر : 144612100983
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن