بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 رمضان 1446ھ 28 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

’’شوہر نے طلاق دی ہے‘‘ یہ مشہور کرکے عورت کا میکے بیٹھ جانا


سوال

چند ماہ قبل  بھائی کی بیٹی  کا نکاح ہونا تھا اور  مجھے  اس میں شریک ہونے کے لیے مسجد جانا تھااسی دوران میری اپنی بیوی سے  بد کلامی ہوگئی ،میں نے غصے کی حالت میں اپنی بیوی کو  درج ذیل کلمات کہے  کہ" مجھے جانا ہے مجھے تنگ نہ کرو  میں نے کچھ فیصلہ نہیں کیا ہے " پھر میں مسجد نکاح میں حاضر ی کے لیے چلا گیا ، اس کے بعد  میرے سسر نے  مجھ سے رابطہ کیا ،اس کو بھی میں نے یہی کہا کہ میں نے ابھی تک  طلاق کے بارے میں  کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے ،اس پر بیوی کے والد صاحب نے کہا کہ چلو میں  بیٹی کو گھر لے جاتا ہوں ،جب دس پندرہ دن بعد  تم دونوں کا غصہ ٹھنڈاہوجائے تو پھر لے جانا یا ہم خود پہنچادیں گے یا کال کردیں گے  ،لیکن اس کے بعد بیوی گھر بیٹھ گئی اور یہ مشہور کر دیا ہے کہ اس نے طلاق دی ہے جبکہ میں نے کوئی طلاق نہیں دی ہے اور میں اب بھی اس کو رکھنے کے لیے تیار ہو ں اس صورت حال میں ہمارا نکاح  برقرار ہے یا نہیں  اور کیا مذکور جملے سے کوئی  طلاق تو نہیں ہوئی ہے؟اور ان کا طلا ق کے بارے میں مشہور کرنا کیسا ہے ؟ اور بیوی اپنے اور بچے کا خرچہ مانگ رہی ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں مذکورہ کلمات  " مجھے جانا ہے مجھے تنگ نہ کرو  میں نے کچھ فیصلہ نہیں کیا ہے " نہ  تو  یہ طلاق کے  صریح الفاظ ہیں اور نہ  ہی  کنائی الفاظ ہیں،لہذا   ان الفاظ کے کہنے سے  کوئی طلاق واقع نہیں ہو ئی،بلکہ میاں بیوی دونوں کانکاح بدستور برقرار ہے ، اور سائل کی بیوی   کااپنے شوہر کی اجازت کے بغیر  اپنے والدین کے گھر بیٹھنااور یہ مشہور کرنا کہ شوہر نے مجھے طلاق دے  دی ہے،یہ دونوں کام شرعاًجائز نہیں ہے ۔

  نیز   بیوی جتناعرصہ   شوہر  کی اجازت ورضامندی کے بغیر   اپنے والدین کے گھر رہی ہے،اس مدت کا نان نفقہ اسے نہیں ملے گا،جبکہ بچےکے نفقہ کی ذمہ داری اس کے بالغ ہونے اور کمانے کی عمر تک پہنچنے تک والد کےذمہ  ہی ہے۔

فتاوی شامی میں  ہے :

"[ركن الطلاق](قوله وركنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالة على معنى الطلاق من صريح أو كناية فخرج الفسوخ على ما مر، وأراد اللفظ ولو حكما ليدخل الكتابة المستبينة وإشارة الأخرس والإشارة إلى العدد بالأصابع في قوله أنت طالق هكذا كما سيأتي."

(کتاب الطلاق،230/3،ط:سعید )

الترغيب والترهيب للمنذري   میں ہے :

"وروي عن ابن عباس رضي الله عنهما أن امرأة من خثعم أتت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله! أخبرني ما حق الزوج على الزوجة؟؛ فإني امرأة أيم فإن استطعت وإلا جلست أيماً! قال: فإن حق الزوج على زوجته إن سألها نفسها وهي على ظهر قتب أن لا تمنعه نفسها، ومن حق الزوج على الزوجة أن لا تصوم تطوعاً إلا بإذنه فإن فعلت جاعت وعطشت ولا يقبل منها،ولا تخرج من بيتها إلا بإذنه فإن فعلت لعنتها ملائكة السماء وملائكة الرحمة وملائكة العذاب حتى ترجع، قالت: لا جرم ولا أتزوج أبداً. رواه الطبراني."

(‌‌كتاب النكاح وما يتعلق به، ج:3،ص:38،39،ط:العلمیة بیروت )

 فتاوی ہندیہ میں ہے :

"وإن نشزت فلا نفقة لها حتى تعود إلى منزله والناشزة هي الخارجة عن منزل زوجها المانعة نفسها منه ."

 (كتاب الطلاق،الباب السابع عشر في النفقات،الفصل الأول في نفقة الزوجة،545/1، ط: دار الفکر)

فتاوی ہندیہ    میں ہے : 

  "الذكور من الأولاد إذا بلغوا حد الكسب، ولم يبلغوا في أنفسهم يدفعهم الأب إلى عمل ليكسبوا، أو يؤاجرهم وينفق عليهم من أجرتهم وكسبهم."

(كتاب الطلاق،الباب السابع عشر في النفقات،الفصل الرابع في نفقة الأولاد، 562/1، ط: رشيديه)

 فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144606101786

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں