اگر کوئی شخص مغرب کی تیسری رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد کوئی دوسری سورۃ بھی پڑھ لے، اور آخر میں سجدہ سہو بھی کر لے تو اس کا کیا حکم ہے؟
واضح رہے کہ مغرب کی تیسری رکعت میں صرف سورۃ فاتحہ پڑھنا مسنون ہے، سورۃ فاتحہ کے ساتھ قصداً کوئی دوسری سورۃ ملانا مکروہِ تنزیہی ہے، اگر پڑھ لی تو اس کی وجہ سے سجدہ سہو لازم نہیں ہوتا،نیز بلا ضرورت سجدہ سہو کرلینے سے نماز فاسد نہیں ہوتی۔
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص کا مغرب کی نماز کی تیسری رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد دوسری سورۃ ملاکر آخر میں سجدہ سہو کرلینے سے اس کی نماز فاسد نہیں ہوئی، لہذا اعادہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"وهل يكره في الأخريين؟ المختار لا.
(قوله وهل يكره) أي ضم السورة.
(قوله المختار لا) أي لا يكره تحريما بل تنزيها لأنه خلاف السنة. قال في المنية وشرحها: فإن ضم السورة إلى الفاتحة ساهيا يجب عليه سجدتا السهو في قول أبي يوسف لتأخير الركوع عن محله وفي أظهر الروايات لا يجب لأن القراءة فيهما مشروعة من غير تقدير، والاقتصار على الفاتحة مسنون لا واجب."
(كتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، واجبات الصلاة، ج: 1، ص: 459، ط: سعيد)
فیہ ایضاً:
"ولو ظن الإمام السهو فسجد له فتابعه فبان أن لا سهو فالأشبه الفساد لاقتدائه في موضع الانفراد.
(قوله فالأشبه الفساد) وفي الفيض: وقيل لا تفسد وبه يفتي. وفي البحر عن الظهيرية قال الفقيه أبو الليث: في زماننا لا تفسد لأن الجهل في القراء غالب."
(كتاب الصلاة، باب الإمامة، ج: 1، ص: 599، ط: سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144407102407
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن