بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کچھ دانت لگانے کے بعد بقیہ دانتوں پر خول چڑھانے اور غسل کا حکم


سوال

میری چار پانچ داڑھ نہیں ہیں،  میں  فکس داڑھ لگوانا چاہتا ہوں، اس میں برج بنتا ہے جس میں سترہ دانت لگیں گے،اب مسئلہ یہ ہے کہ ڈاکٹر نے کہا ہے کہ  باقی پر فکس کیپ لگوالیں ؛ تاکہ سارے دانت ایک جیسے نظر آئیں گے، اب پوچھنا یہ ہے کہ صرف خوب صورتی کے لیے فکس کیپ لگوانا کیسا ہے؟ کیا   اس کیف لگے ہوئے دانت پر واجب غسل کی صورت میں کلی کرنے سے غسل ہو جائے گا ؟

جواب

واضح رہے کہ بلاضرورت صرف تزیین کے لیے دانتوں پر فیکس کیف لگوانا مکروہ ہے، البتہ اگر  ضرورت کی وجہ سے دانتوں کا برج لگوایا جارہا ہے جس میں کئی دانت ہوتے ہیں اور اس کی وجہ سے بقیہ دانت بدنما لگتے ہیں تو بقیہ دانتوں پر کیپ چڑھانا ازالہ عیب کی وجہ سے جائز ہوگا پھر جب کیپ چڑھالیاجائے تو  اگر دانتوں پر کیپ اس طرح چڑھایا گیا ہو کہ وہ بالکل فکس ہوگیا ہوتو وہ دانت کے حکم میں ہوجائے گا اور   اس حالت میں کلی کرنے سے غسل صحیح ہوجائے   گااور وضو میں کلی کرنے کی سنت  بھی ادا ہوجائے گی،اور اگر کیپ کو دانت سے اتارکر دوبارہ چڑھایا جاسکتا ہو  یعنی فکس نہ ہو، تو اس صورت میں واجب  غسل  کے لیے کیپ کو نکال کر  کلی کرنا لازم ہوگا  اور وضو میں بھی  سنت  پر عمل کرنے کے لیے خول اتارنا ضروری ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) لا يمنع (ما على ظفر صباغ و) لا (طعام بين أسنانه) أو في سنه المجوف به يفتى. وقيل إن صلبا منع، وهو الأصح۔"

(کتاب الطہارۃ،فرض الغسل،  ج:1، ص:154، ط:سعید)

وفيه ايضاً:

"‌الأصل ‌وجوب ‌الغسل إلا أنه سقط للحرج."

(كتاب الطہارۃ،فرض الغسل، ج:1، ص:153، ط:سعید)

وفيه ايضاً:

"(لا) يجب (غسل ما فيه حرج كعين) وإن اكتحل بكحل نجس (وثقب انضم و) لا (داخل قلفة)."

 (كتاب الطہارۃ،فرض الغسل،ج:1، ص:152، ط:سعید)

وفيه أيضاً:

"ولا يشد منه)المتحرك (‌بذهب بل بفضة) وجوزهما محمد.....(قوله المتحرك) قيد به لما قال الكرخي إذا سقطت ثنية رجل فإن أبا حنيفة يكره أن يعيدها، ويشدها بفضة أو ذهب ويقول هي كسن ميتة ولكن يأخذ سن شاة ذكية يشد مكانها وخالفه أبو يوسف فقال لا بأس به ولا يشبه سنه سن ميتة استحسن ذلك وبينهما فرق عندي وإن لم يحضرني اهـ إتقاني. زاد في التتارخانية قال بشر قال أبو يوسف: سألت أبا حنيفة عن ذلك في مجلس آخر فلم ير بإعادتها بأسا (قوله وجوزهما محمد) أي جوز الذهب والفضة أي جوز الشد بهما وأما أبو يوسف فقيل معه وقيل مع الإمام."

(‌‌كتاب الحظر والإباحة، ‌‌فصل في اللبس، ج:6، ص:362، ط:سعيد)

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"ولو انكسر ظفره فجعل عليه دواء أو علكا فإن كان يضره نزعه مسح عليه وإن ضره المسح تركه."

          (الباب الثانی فی نواقض المسح، کتاب الطہارۃ، ج:1، ص:35،  ط:رشیدیه)

 کفایت المفتی میں ہے:

’’جواب:دانتوں پر چاندی یا سونے کا خول بلا ضرورت چڑھانا مکروہ ہے، لیکن اگر ضرورت کی وجہ سے چڑھائے جائیں تو مکروہ نہیں، اور بہر صورت چڑھانے کے بعد یہ خول وضو اور غسل کے جواز پر اثر انداز نہیں ہوتے۔‘‘

(کتاب الطہارت، دوسرا باب انسان اور اس کے عوارض، فصلِ چہارم وضو غسل اور تیمم، ج:2، ص:319، ط:دار الاِشاعت)

 فتاوی محمودیہ میں ہے:

’’الجواب حامداً ومصلیاً:

اگر بغیر خول چڑھائے دانت کا قائم رہنا دشوار ہو تو چاندی کا چڑھالینا درست ہے، غسل کے وقت اس کو اتارنے سے معذوری ہو تو بغیر اتارے بھی غسل درست ہو جائے گا، نماز بھی درست ہو جائے گی۔‘‘

(کتاب الطہارت، باب الغسل، فصل اول فرائضِ غسل کے بیان میں، ج:5، ص:82، ط:ادارۃ الفاروق)

فقط واللہ اَعلم


فتوی نمبر : 144503102860

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں