بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بلا عذر گھر میں نماز پڑھنا


سوال

بغير عذر کے گھر میں نماز میں ہوتی ہے یا نہیں؟

جواب

جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا سنت مؤکدہ ہے جو حکم کے اعتبار سے واجب کے قریب ہے، بلا عذر مرد کے گھر میں نماز پڑھنے سے نماز کی فرضیت  تو ادا ہوجاتی ہے، لیکن اس کی عادت بنا لینا گناہ ہے، شفیق ومہربان نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جماعت ترک کرنے والوں کے متعلق شدید وعیدیں ارشاد فرمائی ہیں، بہت سی روایات میں یہ مضمون وارد ہے کہ اگر گھروں میں عورتیں اور بچے نہ ہوتے تو میں اپنے جوانوں کو لکڑیاں جمع کرنے کا حکم دیتا اور نماز قائم کرتا اور جوانوں کو حکم دیتا کہ ان لوگوں کے گھروں کو آگ سے جلادیں جو  جماعت میں نہیں آتے۔اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یا تو کھلا ہوا منافق جماعت ترک کرتاتھا یا پھر ایسا مریض جو دو آدمیوں کے سہارے بھی نہ آسکتاہو، ورنہ مریض بھی دو آدمیوں کے سہارے گھسٹتے  قدموں آکر مسجد کی جماعت میں شامل ہوتے تھے، اور  عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ   ﷺ سے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ مدینہ میں موذی حشرات اور درندے بہت ہیں اور میں نابینا ہوں، کیا میرے لیے جماعت چھوڑنے کی کوئی رخصت ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا تم "حی علی الصلاۃ، حی علی الفلاح" سنتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا: جی ہاں! چناں چہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں رخصت نہ دی، اور فرمایا: پھر توآپ کو آنا ہوگا؛ اس لیے مرد کے لیے بلاعذر گھر میں نماز کا معمول بنانا گناہ ہے، مسجد میں ہی جماعت سے نماز ادا کرنا چاہیے، البتہ اگر کبھی عذر کی وجہ سے جماعت رہ جائے اور دوسری مسجد میں بھی جماعت ملنے کی توقع نہ ہو تو گھر میں نماز پڑھنے میں حرج نہیں۔

في الشامیة:

" قال في شرح المنیة: والأحکام تدل علی الوجوب من أن تارکها بلاعذر یعزر وترد شهادته ویأثم الجیران بالسکوت عنه." (شامي ۲؍۲۸۷ زکریا)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144201200660

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں