بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بلا عذر سواری پر سعی اور طواف کرنے کا حکم


سوال

 پچھلے مہینے گھر والوں کے ساتھ عمرہ پر جانے کی سعادت نصیب ہوئی، اس وقت میری اہلیہ حمل کی حالت میں تھیں، طواف تو پیدل کیا ، البتہ سعی پیدل کرنے کی ہمت نہ ہوسکی، اہلیہ کی طبیعت کی وجہ سے حرم مکی میں موجود الیکٹرک گاڑی پر سعی کی، ہمارے ساتھ چوں کہ تین سال کی بچی بھی تھی، اس لیے میں نے ایک الیکٹرک گاڑی لے لی، جس میں ہم سب نے سعی کی، واپس آنے کے بعد مجھے پتا چلا کہ بغیر عذر کے گاڑی یا ویل چیئر پر سعی یا طواف کرنا صحیح نہیں اور اب اس صورت میں دم واجب ہوگا۔

۱) سوال یہ ہے کہ کیا اہلیہ کا چھ ماہ کا حمل عذر ہوگا؟ کیا اس وجہ سے انہیں الیکٹرک گاڑی پر سعی کرنے کی رخصت ہوگی؟

۲) کیا میرا اپنی اہلیہ کے ساتھ اس الیکٹرک گاڑی میں سعی کرنے سے میری سعی ادا ہوگئی؟ مجھے اس وقت مسئلہ کا علم نہیں تھا، اور اہلیہ کے ساتھ اس گاڑی میں بیٹھنے کی وجہ اہلیہ کی طبیعت اور چھوٹی بچی کو سنبھالنا تھی۔

۳) دم واجب ہونےکی صورت میں کیا صرف مجھ پر دم واجب ہوگا یا اہلیہ پر بھی واجب ہوگا؟

۴) کیا نفلی طواف میں الیکٹرک گاڑی کا استعمال کیا جاسکتا ہے؟

۵) آج کل مطاف میں طواف کی اجازت نہ ہونے کی وجہ سے، اور پہلی منزل اور چھت پر طواف کے لمبا ہونےکی وجہ سے کیا ضعیف آدمی کو، جو کہ پیدل چلنے پر قادر ہے، الیکٹرک گاڑی یا ویل چیئر پر طواف کی گنجائش ہوگی؟

۶) عدم جواز کی صورت میں اگر کسی نے نفلی طواف الیکٹرک گاڑی میں کرلیا ہو تو اس کا جرمانہ کیا ہوگا؟ 

جواب

۱) صورتِ مسئولہ میں سائل کی اہلیہ اگر  حمل کی وجہ سے واقعۃ پیدل چل کر سعی کرنے پر قادر نہیں تھی  یا پیدل سعی کرنے کی صورت میں سخت تکلیف اور مشقت کا اندیشہ تھا تو پھر الیکٹرنک گاڑی پر سعی کرنے سے سعی ہوگئی تھی۔

۲) سائل چوں کہ پیدل چل کر سعی کرنے پر قادر تھا اس لیے الیکٹرک گاڑی پر سعی کرنے کی سائل کو اجازت نہیں تھی،بچی کا سنبھالنا شرعا عذر شمار نہیں ہوگا۔ سائل پر واجب (سعی پیدل کرنا) چھوڑنے کی وجہ سے دم ادا کرنا واجب ہے۔ 

۳) صرف سائل پر دم واجب ہے۔

۴،۶)   نفلی طواف میں افضل یہ ہے کہ پیدل چل کر طواف کیا جائے ۔ نیز  اگر کوئی شخص طواف شروع ہی الیکٹرک گاڑی پر سوار ہو کر کرتا ہے تو پھر الیکٹرک گاڑی پر  اس کا طواف ہوجائے گا اور اس پر کچھ لازم نہیں ہوگا چاہے عذر سے ایسا کیا ہو یا بلا عذر کیا ہو۔ 

۵) ضعیف آدمی چو چلنے پر قادر نہ ہو وہ شرعا معذور شمار ہوگا اور اس کو الیکٹرک  گاڑی پر طواف کرنے کی اجازت ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(والبداءة بالطواف من الحجر الأسود) على الأشبه لمواظبته - عليه الصلاة والسلام - وقيل فرض وقيل سنة (والتيامن فيه) أي في الطواف في الأصح (والمشي فيه لمن ليس له عذر) يمنعه منه، ولو نذر طوافا زحفا........(وبداءة السعي بين الصفا والمروة من الصفا) ولو بدأ بالمروة لا يعتد بالشوط الأول في الأصح (والمشي فيه) في السعي (لمن ليس له عذر)

(قوله والمشي فيه إلخ) فلو تركه بلا عذر أعاده وإلا فعليه دم لأن المشي واجب عندنا على هذا نص المشايخ وهو كلام محمد، وما في الخانية من أنه أفضل تساهل أو محمول على النافلة لا يقال بل ينبغي في النافلة أن تجب صدقة لأنه إذا شرع فيه وجب فوجب المشي لأن الفرض أن شروعه لم يكن بصفة المشي، والشروع إنما يوجب ما شرع فيه كذا في الفتح

عندنا على هذا نص المشايخ وهو كلام محمد، وما في الخانية من أنه أفضل تساهل أو محمول على النافلة لا يقال بل ينبغي في النافلة أن تجب صدقة لأنه إذا شرع فيه وجب فوجب المشي لأن الفرض أن شروعه لم يكن بصفة المشي، والشروع إنما يوجب ما شرع فيه كذا في الفتح."

(کتاب الحج ، ج نمبر ۲ ص نمبر ۴۶۸، ایچ ایم سعید)

حاشیہ ارشاد الساری میں ہے:

"(الرابع) اي من الواجبات (المشي فيه) للاقادر ففي الفتح المشي واجب و علي هذا نص المشائخ  وهوكلام محمد و ما في فتاوي قاضي خان من قوله و الطواف ماشيا افضل تساهل او محمول علي النافلة ...... (فلو طاف) اي طواف يجب المشي فيه( راكبااو محمولا او زحفا) اي علي استه او علي اربعته او علي جنبه او ظهره كالسطيح (بلا عذر فعليه الاعادة) اي ما دام مكة (او الدم) لتركه الواجب (و ان كان) اي تركه (بعذر لا شيئ عليه) كما في سائر الواخبات. (و لو نذر)  اي هو قادر علي المشي( ان ىطوف زحفا) و كذا ما في معناه (لزمه) اي الطواف (ماشيا) لالتزامه بالوجه الاكيد بخلاف من شرع زحفا بنية النفل فان المشي في حقه هو الافضل كما تقدم والله اعلم ."

(باب انواع الاطوفۃ احکامھا ،فصل فی واجبات الطواف،ص نمبر ۲۱۵،المکتبۃ الامدایۃ)

حاشیۃ ارشاد الساری میں ہے:

"(المشي فيه، فان سعي راكبا او محمولا او زحفا ) اي بحميع انواعه مما لا يطلق عليه ان مشي ( بغير عذر فعليه دم ولو بعذر فلا شيئ عليه ) هذا واضح."

(باب السعی بین الصفا والمروۃ ، فصل فی واجبات السعی ، ص نمبر ۲۵۳، المکتبۃ الامدادیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408102429

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں