بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 جمادى الاخرى 1446ھ 09 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

بلا عذر جمعہ سنتیں چھوڑنے کا حکم


سوال

اگر کوئی مسلمان جمعہ کے صرف دو فرض با جماعت ادا کرے اور سنتیں نہ پڑھے بغیر کسی شرعی عذر کے یا شرعی عذر کی وجہ سے، تو کیا اس کے لیے یہ کرنا جائز ہے؟اگر کوئی مسافر ہو،  تو کیا اس طرح  کا جمعہ کا فرض ادا ہو گیا اور سنتیں نہ پڑھنے سے اسے کوئی گناہ تو نہیں ہو گا؟

جواب

واضح رہے کہ جمعہ کی نماز سے پہلے کی  چار رکعات سنتِ مؤکدہ ہیں، اسی طرح  جمعہ کی نماز کے بعد بھی  راجح قول کے مطابق چار سنتیں مؤکدہ ہیں، بغیر کسی عذر کے اُن کو چھوڑنے کی عادت بنا لینا درست نہیں اور بہت بڑی خیر سے محرومی کا باعث ہے، البتہ اگر کبھی کسی عذر کی بناء پر رہ جائیں،  تو اس میں گنا ہ نہیں ہے ۔البتہ مسافر کے بارے میں یہ حکم ہے کہ مسافر کے حق میں سنتیں ساقط ہوجاتی ہیں، سنتوں کے چھوڑنے کی وجہ سے مسافر گناہ گار نہیں ہوگا، البتہ اگر سفر میں سہولت ہو اور سنتیں پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہ ہو، تو یہ سنتیں بھی پڑھ لینی چاہییں۔

بہر صورت چاہے سنتیں پڑھے یا نہ پڑھے، جمعہ کی دو فرض ادا کرنے سے فرضیت ساقط ہوجائے گی اور سنت چھوڑنے کا گناہ ہوگا۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما الصلاة المسنونة فهي السنن المعهودة للصلوات المكتوبة، والكلام فيها يقع في مواضع: في بيان مواقيت هذه السنن، ومقاديرها جملة وتفصيلا... ومقدار جملتها اثنتا عشرة ركعة: ركعتان وأربع، وركعتان وركعتان،وركعتان في ظاهر الرواية،وأما مقدار كل واحدة منها، ووقتها على التفصيل: فركعتان قبل الفجر، وأربع قبل الظهر لا يسلم إلا في آخرهن، وركعتان بعده، وركعتان بعد المغرب، وركعتان بعد العشاء كذا ذكر محمد في الأصل، وذكر في العصر والعشاء إن تطوع بأربع قبله فحسن، وذكر الكرخي هكذا إلا أنه قال في العصر: وأربع قبل العصر، وفي العشاء وأربع بعد العشاء...والأصل في السنن ما روي عن عائشة - رضي الله عنها - عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أنه قال «من ثابر على اثنتي عشرة ركعة في اليوم والليلة بنى الله له بيتا في الجنة: ركعتين قبل الفجر، وأربع قبل الظهر، وركعتين بعدها، وركعتين بعد العشاء» ، وقد واظب رسول الله صلى الله عليه وسلم عليها ولم يترك شيئا منها إلا مرة أو مرتين لعذر ... و روى جماعة من الصحابة عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه «كان يصلي بعد الزوال في كل يوم أربع ركعات»...وروي في بعضها أنه صلى أربعا، وفي بعضها ركعتين فإن صلى أربعا كان حسنا لحديث أم حبيبة - رضي الله عنها - عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال «من صلى أربع ركعات قبل العصر كانت له جنة من النار» وذكر في الأصل وإن تطوع بعد المغرب بست ركعات كتب من الأوابين وتلا قوله تعالى {فإنه كان للأوابين غفورا} [الإسراء: 25] ، وإنما قال في الأصل: إن التطوع بالأربع قبل العشاء حسن؛ لأن التطوع بها لم يثبت أنه من السنن الراتبة، ولو فعل ذلك فحسن؛ لأن العشاء نظير الظهر في أنه يجوز التطوع قبلها وبعدها...وأما السنة قبل الجمعة وبعدها فقد ذكر في الأصل: وأربع قبل الجمعة، وأربع بعدها، وكذا ذكر الكرخي... أما الأربع قبل الجمعة؛ فلما روي عن ابن عمر - رضي الله عنه - «أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يتطوع قبل الجمعة بأربع ركعات» ؛ ولأن الجمعة نظير الظهر، ثم التطوع قبل الظهر أربع ركعات كذا قبلها".

[كتاب الصلاة، ج:1، ص:284، 285، ط:دارالكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411102600

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں