بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بلا عذرِ شرعی امام پر اعتراض کرنا


سوال

اگر امام اپنی ہئیت پر نماز ادا کرے جس میں تمام ارکان نماز بھی ادا ہورہے ہوں تو کیا کسی مقتدی کا اعتراض کرنا کہ ہماری رکعت رہ گئی، درست ہے ؟ 

جواب

صورت مسئولہ میں جب امام اپنی ہیئت پر نماز ادا کر رہا ہو، یعنی مسنون قراءت کر رہا ہو  اور  رکوع و  سجدہ  وغیرہ، تمام ارکان ٹھہر ٹھہر کر ادا کر رہا ہو، تو کسی مقتدی کا امام پر یہ اعتراض کرنا کہ اس کی نماز رہ گئی، درست نہیں ہے۔ تاہم اگر امام  مسنون طریقہ سے جلدی نماز ادا کر رہا ہو اور مقتدی کو اس پر اعتراض ہو تو امام کو چاہیے کہ اپنی اصلاح کرتے ہوئے مسنون ہیئت پر نماز پڑھائے۔ صرف نماز کے ارکان فرض کی حد تک بجا لانا اور سنن کا خیال نہ کرنا،  مکروہ ہے۔

مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (1 / 115):

"وفيه لو أمّ قومًا وهم له كارهون، فهو من ثلاثة أوجه: إن كانت الكراهة لفساد فيه، أو كانوا أحق بالإمامة منه، يكره، وإن كان هو أحق بها منهم ولا فساد فيه و مع هذا يكرهونه لايكره له التقدم."

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1 / 541):

"(قوله: و اختار في البدائع عدم التقدير إلخ) وعمل الناس اليوم على ما اختاره في البدائع رملي. والظاهر أن المراد عدم التقدير بمقدار معين لكل أحد وفي كل وقت، كما يفيده تمام العبارة، بل تارة يقتصر على أدنى ما ورد كأقصر سورة من طوال المفصل في الفجر، أو أقصر سورة من قصاره عند ضيق وقت أو نحوه من الأعذار، «لأنه صلى الله عليه وسلم قرأ في الفجر بالمعوذتين لما سمع بكاء صبي خشية أن يشق على أمه» وتارة يقرأ أكثر ما ورد إذا لم يمل القوم، فليس المراد إلغاء الوارد ولو بلا عذر، ولذا قال في البحر عن البدائع: والجملة فيه أنه ينبغي للإمام أن يقرأ مقدار ما يخف على القوم ولا يثقل عليهم بعد أن يكون على التمام، وهكذا في الخلاصة اهـ."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144206200784

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں