بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بلا تحقیق دعوت کھانے کا حکم


سوال

کیا بلا تحقيق کے دعوت کھانا جائز ہے؟

جواب

اگر کوئی شخص ظاہراً شریعت کا پابند ہو، دین دار ہو اوراس کے ظاہری احوال اس کی آمدنی  کے حلال ہونے کی تصدیق کرتے ہوں تو اس کی دعوت قبول کرنا درست ہے، بلا کسی معقول شبہ کے تحقیق کی ضرورت نہیں، بلکہ کسی بنیاد کے بغیر مسلمان کے بارے میں بدگمانی یا دائرۂ کار سے بڑھ کر تجسس (تفتیش) کرنا شرعًا ممنوع ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 346):

"(وشرط العدالة في الديانات) هي التي بين العبد والرب (كالخبر عن نجاسة الماء فيتيمم) ولا يتوضأ (إن أخبر بها مسلم عدل) منزجر عما يعتقد حرمته (ولو عبدا) أو أمة (ويتحرى في) خبر (الفاسق) بنجاسة الماء (و) خبر (المستور ثم يعمل بغالب ظنه، ولو أراق الماء فتيمم فيما إذا غلب على رأيه صدقه وتوضأ وتيمم فيما إذا غلب) على رأيه (كذبه كان أحوط) وفي الجوهرة: وتيممه بعد الوضوء أحوط."

البحر الرائق میں ہے:

"حيث يتحرى في خبر الفاسق كالإخبار بطهارة الماء ونجاسته وحل الطعام وحرمته وبخلاف الهدية والوكالة، وما لا إلزام فيه من المعاملات حيث يقبل خبره بدون التحري للزوم الضرورة ، ولا دليل سواه فوجب قبوله مطلقا".(6/166)

(4/121امدادالفتاویٰ - فتاوی محمودیه 18/133)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110201552

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں