بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

13 ذو القعدة 1446ھ 11 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

بلا تعدی امانت کے تلف ہونے کی صورت میں شرعی حکم


سوال

میں نے اپنی والدہ کے پاس کچھ زیورات بطور امانت رکھوائے تھے، کیونکہ ہم نے گھر تبدیل کیا تھا اور نیا گھر محفوظ نہ تھا۔ کچھ عرصے بعد جب میں نے اپنی والدہ سے زیورات کا مطالبہ کیا تو انہوں نے کہا کہ وہ دے دیں گی، لیکن بھائی کی شادی اور بعد میں حج کے سفر کے باعث وہ بھول گئیں۔ جب وہ حج سے واپس آئیں اور میں نے دوبارہ مطالبہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ زیورات چوری ہو گئے ہیں، حالانکہ گھر سے صرف یہی زیورات چوری ہوئے، اور کوئی اور چیز چوری نہیں ہوئی۔ پھر جب میں نے کچھ عرصے بعد دوبارہ مطالبہ کیا تو والدہ نے جواب دیا: "کہاں سے دوں؟" اور والد صاحب نے کہا: "میں تمہیں زیورات دے دوں گا۔" اب کئی سال گزر چکے ہیں، لیکن جب بھی میں والدہ سے زیورات کا ذکر کرتا ہوں، وہ کہتی ہیں کہ "شرعی طور پر تم یہ زیورات ہم سے طلب نہیں کر سکتے۔

میرا سوال یہ ہے: کیا والدہ کا یہ کہنا درست ہے؟ اور چونکہ والد صاحب صاحبِ استطاعت ہیں، تو کیا ان پر یہ لازم ہے کہ وہ یہ زیورات واپس کریں؟

جواب

اگر کوئی شخص کسی چیز کو بطور امانت کسی کے پاس رکھوائے اور امین (جس کے پاس امانت رکھی گئی ہو) پوری حفاظت کے ساتھ، بغیر کسی تعدی (زیادتی یا کوتاہی) کے اس امانت کی نگرانی کرے، اور اس کے باوجود وہ چیز ہلاک یا ضائع ہو جائے  تو شرعاً امین پر کوئی ضمان (تاوان) لازم نہیں آتا۔

صورت مسئولہ میں سائل نے زیورات بطور امانت اپنی والدہ کے پاس رکھوائے،والدہ نے امانت کو واپس کرنے کا ارادہ ظاہر کیا لیکن بھول جانے کی وجہ سے فوراً واپس نہ کر سکیں بعد ازاں وہ زیورات چوری ہو گئے، تواگراس چوری میں والدہ کی غفلت نہیں پائی گئی تب توان پرضمان لازم نہیں ،لیکن اگروالدہ کی غفلت اورکوتاہی کی وجہ سے یہ زیورات چوری ہوئے تووالدہ پرضمان لازم ہے۔

اور والد نے چونکہ زیورات دینے کا وعدہ کیا ہے، تو اس وعدے کو پورا کرنا ان کے لیے دیانۃً  واخلاقاضروری ہے،اگروالدنےنہیں دیےتووعدہ کی خلاف ورزی کاگناہ ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولو منعه الوديعة ظلما بعد طلبه) لرد وديعته...(قادرا على تسليمها ضمن، وإلا) بأن كان عاجزا أو خاف على نفسه أو ماله بأن كان مدفونا معها ابن ملك (لا) يضمن كطلب الظالم"

 (کتاب الایداع،ج:5،ص: 665،ط:سعید)

وفیہ ایضا:

"(قوله: كوكيله) في الخلاصة المالك إذا طلب الوديعة فقال المودع: لا يمكنني أن أحضرها الساعة فتركها، وذهب إن تركها عن رضا فهلكت لا يضمن؛ لأنه لما ذهب فقد أنشأ الوديعة، وإن كان عن غير رضا يضمن...الخ"

 (کتاب الایداع،ج:5،ص: 665،ط:سعید)

وفیہ ایضا:

"(وهي أمانة) هذا حكمها مع وجوب الحفظ والأداء عند الطلب واستحباب قبولها (فلا تضمن بالهلاك) إلا إذا كانت الوديعة بأجر أشباه معزيا للزيلعي (مطلقا) سواء أمكن التحرز أم لا، هلك معها شيء أم لا لحديث الدارقطني: ليس على المستودع غير المغل ضمان"

 (کتاب الایداع،ج:5،ص:664،ط:سعید)

درر الحكام في شرح مجلة الأحكام میں ہے: 

"القاعدة الثانية، إذا هلكت الأمانة بسبب صنع الأمين وفعله أو تقصيره في أمر المحافظة أو من جهة مخالفة صاحب المال المعتبر شرعا وغير الجائز مخالفته يكون الأمين ضامنا."

(الکتاب السادس،الباب الاول،ج:2،ص:236،ط:دار الجيل)

الأشباه والنظائرةمیں ہے:

"كذا في نفقات الظهيرية الخلف في ‌الوعد حرام كذا في أضحية الذخيرة وفي القنية."

  (الفن الثانی،کتاب الحظروالاباحة،ص:247،ط:دار الكتب العلمية)

موسوعۃ القواعد الفقہیہ میں ہے:

"أولاً: لفظ ورود القاعدة:التحرز عن الغدر واجب...‌‌ثانيا: معنى هذه القاعدة ومدلولها:الغدر: نقض العهد.فلا يجوز نقض العهد ولذلك كان التحفظ والامتناع من نقضه واجبا، بل الامتناع عن حدوثه واجبا."

(حرف التاء،القاعدة السادسة والأربعون،ج،:2،ص:217،ط:مؤسسة الرسالة)

فتاوی عالمگیریہ میں  ہے:

"إذا طلب الوديعة، فقال: اطلبها غدا، ثم قال في الغد: ضاعت، فإنه يسأل، إن قال: ضاعت قبل قولي اطلبها غدا، يضمن، وإن قال: ضاعت بعده لا للتناقض في الأول دون الثاني، كذا في الفصول العمادية."

(کتاب الودیعة،الباب السادس،ج:4،ص:352،ط:المطبعة الكبرى الأميرية ببولاق مصر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144610100963

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں