جناب مفتی صاحب ہماری والدہ کے نام ایک مکان ہے، 1983ء میں اس مکان کو ہم نے تعمیر کرایا، جس پر 1لاکھ 41ہزار خرچہ ہوا ، اس میں 80 ہزار روپے میں نے خرچ کیے،ا س کی رسیدیں اور دستاویز میرے پاس موجود ہیں، 1995ء سے ابھی تک ميں الگ كرايه كے مكان ميں رهتا هوں، ميرے پاس اپنا ایک دوسرا پلاٹ ہے ، لیکن میرے پاس تعمیر کے لیے رقم نہیں ہے، میں چاہتاہوں کہ میں اپنے پلاٹ پر گھر تعمیر کروں، اور میرا بھائی مجھے تعمیر کے لیے رقم دے دے، آپ انصاف کے ساتھ فیصلہ فرمائیں ،کیا مجھے صرف 80 ہزار رقم ملے گی یا آج کے حساب سے اس کی مالیت ملے گی؟ (اگر مجھے صرف 80 ہزرا رقم مل جائے تو اس رقم سے میں اپنا مکان تعمیر نہیں کرسکتا)۔ یا میرا بھائی میرے لیے گھر تعمیر کرے گا؟ مذکورہ رقم خرچ کرتے ہوئے کوئی معاہدہ نہیں ہوا تھا۔
سوال نامہ میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق حکم یہ ہے کہ سائل نے والدہ کے مکان پر مذکورہ 80 ہزار رقم خرچ کرتے ہوئے جب والدہ کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں کیا تھا تو ایسی صورت میں سائل اس رقم کا مطالبہ نہیں کرسکتا،مذکورہ گھر سارا کا سارا سائل کی والدہ کی ملکیت ہے، والدہ کے انتقال کے بعد والدہ کے تمام ورثاء میں وراثت کے قاعدہ کے مطابق تقسیم ہوگا، البتہ سائل کی والدہ کوچاہئے کہ اگر اپنی دیگر اولاد کو مکان میں رہنے کے لیے جگہ دی ہے تو اس طرح سائل کو بھی اس گھر میں رہنے کے لیے جگہ دے؛ تاکہ اولاد کے ساتھ برابری ہو اور سب کے ساتھ یکساں حسن سلوک ہو۔
موسوعة القواعد الفقهيه ميں هے:
"لا رجوع فيما تبرّع به عن غيره ،التّبرّع: هو إعطاء مجّاني دون مقابل."
(موسوعة القواعد الفقهية،8/ 868،ط:بيروت لبنان)
جامع الفصولين میں ہے:
"عمر دار امرأته فمات وتركها وابناً فلو عمرها بإذنها فالعمارة لها والنفقة دين عليها فتغرم حصة الابن. ولو عمرها لنفسه بلا إذنها فالعمارة ميراث عنه وتغرم قيمة نصيبه من العمارة وتصير كلها لها. ولو عمرها لها بلا إذنها قال النسفي: العمارة كلها لها ولا شيء عليها من النفقة فإنه متبرع. وعلى هذا التفصيل عمارة كرم امرأته وسائر أملاكها."
(جامع الفصولين 2/ 119)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144305100662
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن