بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بلا اجازت وظائف پڑھنے سے نقصان ہوتا ہے یا نہیں؟


سوال

میرا سوال یہ ہے کہ بغیر اجازت روحانی وظائف سے کیا نقصان ہوتا ہے؟ میں نے مولانا محمد یونس پالن پوری کی وظائف کی کتاب سے دائمی صحت والے اور ایک دو وظائف کیے چند دن کے لیے تو اب میرا سر کافی بھاری ہوجاتا ہے،  وظائف قرآنی آیات کے تھے اور ان میں کوئی ایسا نسخہ نہیں کیا جو غیر شرعی ہو، دائمی صحت کا وظیفہ سورہ الروم کی آیت تھی، اور اس کے علاوہ کوئی وظیفہ زیادہ نہیں کیا، براہ کرم بتائیں کہ یہ وظائف خود سے کرنے کی وجہ سے ہیں، یا  اس کا کوئی تعلق نہیں؟ میں نے صاف نیت کے ساتھ  ایک دو بندوں کو جو بزرگ ہیں، ان کو بھی بتایا وظائف کا تاکہ ان کی صحت کو کچھ نہ ہو۔

اب آپ بتائیں کہ مجھے کوئی مسئلہ تو نہیں ہوسکتا یہ سب کرنے سے؟

جواب

واضح رہے کہ کسی وظیفہ یا عمل کے پڑھنے کے لیے کسی شیخ کی اجازت شرعاً لازم یا ضروری نہیں، بدونِ  اذن بھی مستند وظائف اور اعمال درست ہیں، البتہ بسااوقات پڑھنے والے کو ان اعمال ووظائف سے متعلق بزرگوں کے تجربات کی روشنی میں اپنے احوال کے لیے اوراد کی مناسب تشخیص،   مفیدہدایات، فیض کا حصول اورکلمات وغیرہ کی اصلاح مقصود ہوتی ہے، اس لیےبعض اعمال ووظائف میں بزرگوں سے راہ نمائی لی جاتی ہے،ا سی کو ’’اذن‘‘  اور’’ا جازت‘‘ کہتے ہیں ۔

چنانچہ حکیم الامت رحمہ اللہ  اسی نوعیت کے سوال کے جواب میں لکھتے ہیں :

’’ عملیات میں اجازت دینے کی حقیقت اور اس کا فائدہ:

سوال کیا گیا کہ عملیات تعویذات میں اجازت کی کیا ضرورت ہے؟

فرمایا: عملیات دو قسم کی ہیں: ایک تو وہ جن کا اثر دنیاوی ضرورتوں کا پورا ہونا ہے۔ اس میں اجازت کا مقصد تقویتِ خیال (یعنی خیال کو مضبوط کرنا) ہے؛  کیوں کہ رواج اور عادت کی وجہ سے پڑھنے والے کو یہ اطمینان ہوجاتا ہے کہ اجازت کے بعد خوب اثر ہوگا۔ اور اثر ہونے کا دارو مدار قوتِ خیال پر ہے اور اجازت وغیرہ قوتِ خیال کا ذریعہ ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ اجازت دینے والے کی توجہ بھی اس کی طرف ہوجاتی ہے،  اس سے اس کے خیال کے ساتھ ایک دوسرا خیال مل جاتا ہے جس سے عمل پڑھنے والے کے خیال کو تقویت پہنچتی ہے۔

دوسرے وہ اعمال جن کا ثمرہ اخروی ہوتا ہے (یعنی آخرت میں ثواب ہوگا) سو ایسے اعمال میں اجازت کی کوئی ضرورت نہیں، ثواب اور اللہ کا قرب ہر حالت میں یک ساں ہوگا اور اگر اس کو اجازتِ حدیث وغیرہ پر قیاس کیا جائے تو صحیح نہیں؛  کیوں کہ وہاں اجازت سے سند کی روایت مقصود ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر شخص روایت کا اہل نہیں ہوتا۔ اسی طرح میرا خیال ہے کہ ہر شخص وعظ کا بھی اہل نہیں جس کی حالت پر اطمینان ہوجائے کہ وہ گڑبڑ نہ کرے گا اس کو اجازت دینا چاہیے۔

الغرض اخروی اعمال میں اجازت کے کوئی معنی نہیں بلا اجازت بھی (ان اعمال کے کرنے سے) ثواب میں کمی نہ ہوگی۔ البتہ ماثور (یعنی مسنون) دعاؤں میں الفاظ واعراب کی تصحیح بھی مقصود ہوتی ہے سو جس کو استعداد نہ ہو (جو صحیح نہ پڑھ سکتا ہو) اس کے لیے اجازت میں یہ مصلحت ہے کہ استاد صحیح کرادے گا، اور جس کو اتنی استعداد ہو کہ وہ خود صحیح پڑھ سکتا ہواس کو اس کی بھی ضرورت نہیں۔‘‘ (اشرف العملیات)

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں سائل نے بلا اجازت جو وظائف پڑھے اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں، تاہم بہتر یہ ہے کہ کسی معتمد عالمِ دین بزرگ سے ان وظائف  کا صحیح تلفظ سیکھ کر ان کی اجازت لے لے، البتہ وہم میں پڑنے کی بھی ضرورت نہیں، طبیعت کی خرابی کی  کوئی اور وجہ بھی ہوسکتی ہے، لہٰذا کسی ماہر طبیب سے رجوع کرکے اس سے  دوا لے لے۔

الاتقان فی علوم القرآن للسیوطی میں ہے :

’’الإجازة من الشيخ غير شرط جواز التصدي للإقراء والإفادة فمن علم من نفسه الأهلية جاز له ذلك وإن لم يجزه أحد وعلى ذلك السلف الأولون والصدر الصالح وكذلك في كل علم وفي الإقراء والإفتاء خلافا لما يتوهمه الأغبياء من اعتقاد كونها شرطا وإنما إصطلح الناس على الإجازة لأن أهلية الشخص لا يعلمها غالبا من يريد الأخذ عنه من المبتدئين ونحوهم لقصور مقامهم عن ذلك والبحث عن الأهلية قبل الأخذ شرط فجعلت الإجازة كالشهادة من الشيخ للمجاز بالأهلية.‘‘ 

(‌‌النوع الرابع والثلاثون: في كيفية تحمله، ١/ ٣٥٥، ط: الهيئة المصرية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411102237

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں