میری ایک کزن ہے،وہ ایک جگہ جاب کرتی تھی ،وہاں جاب کے دوران اپنے بوس سے بات چیت شروع ہوئی اور نوبت یہاں تک آپہنچی کہ لڑکے نے لڑکی کو باہر ملک میں تعلیم دلوانے کا جھانسا دے کر اس سے چھپ کر نکاح کرلیا، حالاں کہ لڑکا پہلے سے شادی شدہ ہے، لڑکی نے اپنے گھر میں کسی کو نہیں بتایا،پھر جب لڑکی کے گھر والوں کو پتا چلا تو انہوں نے پہلے پہل لڑکے کے والدین سے بات کرنا چاہی، تاکہ خاندان میں بدنامی نہ ہو، لڑکے کے والدین اس موضوع پر بات کرنے کو تیا ر نہیں ہیں، نیز لڑکی والوں نے لڑکے کو دیکھابھی نہیں ہے،یعنی لڑکے کے والدین بھی راضی نہیں ہیں، اور نہ لڑکا اس نکاح کے بارے میں کسی کو بتانا چاہتا ہے،لڑکی والوں نےبراہِ راست لڑکے سے بات کی کہ لڑکی کو اپنے نکاح سے آزاد کردو،اس نکاح سے تمہارے والدین بھی راضی نہیں ہیں تو وہ الٹا دھمکیاں دینے لگا کہ میں لڑکی کوخاندان میں بدنام کردوں گااور گالی دینے لگا۔ اب ہمیں بتائیں کہ لڑکی کا ایسا اقدام کرنا شریعت میں کیا حکم رکھتا ہے؟ جس کی وجہ سے والدین کو بھی تکلیف ہے اور خاندان میں بدنامی کا باعث ہے اور ہم اس نکاح کو ختم کرنا چاہتے ہیں،اس کا کیا طریقہ ہے؟ لڑکی کا گھرانہ دیندار گھرانہ ہے،یہ نکاح تو ہمارے لیے بدنامی کا باعث ہے، اسی طرح ہمیں یہ بھی نہیں پتہ کہ لڑکی کہاں رہے گی ،وہ محفوظ ہے یا نہیں ہے،کل کو خدانخواستہ کچھ ہوگیا تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا۔
لڑکامال ،پیشہ ،تعلیم میں تو لڑکی سے بڑھ کر ہے،البتہ اس کے ساتھ گفتگو کرنے پر اندازہ ہوا کہ وہ اخلاق اور تہذیب میں گرا ہوا ہے، کیوں کہ اس سے بات کرنے پر اس نے گالم گلوچ کی اور لڑکی کو بدنام کرنے کی دھمکی دی ہے۔
اگر کوئی عاقل بالغ لڑکی اپنا نکاح گواہوں کی موجودگی میں کسی کے ساتھ کردیتی ہےتو اس سے نکاح منعقد ہو جاتاہے،تاہم غیر کفو میں نکاح کی صورت میں لڑکی کے اولیاء کو نکاح کے فسخ کرنے کا اختیار ہوتاہےاور کفو کی صورت میں اختیار نہیں ہوتاہے۔کفوسے مراد لڑکے کا چھ امور :اسلام،نسب، مال، دیانت، پیشہ اور آزادی میں لڑکی کا ہم پلہ یا اس سے بڑھ کر ہوناہے؛صورتِ مسئولہ میں چوں کہ لڑکا لڑکی سے اعلی ہے،اس لیے لڑکی کے والدین کو فسخ ِ نکاح کااختیار نہیں ہے۔ صرف گالم گلوچ کرنے کی بنیاد پر والدین کو فسخِ نکاح کا ختیار نہیں ملےگا۔باقی اگر لڑکی طلاق یا خلع پر راضی ہوجائےتو اس سے طلاق یا خلع لے لےاور اگر وہ بعد میں حقوقِ زوجیت یا نان نفقہ ادا نہیں کرے گاتو اس صورت میں عدالت سے رجوع کرکے شرعی طریقہ سے نکاح کی تنسیخ کرنا جائز ہوگا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"يستحب للمرأة تفويض أمرها إلى وليها كي لاتنسب إلى الوقاحة، بحر. وللخروج من خلاف الشافعي في البكر، وهذه في الحقيقة ولاية وكالة ( أيضاً)."
(كتاب النكاح، باب الولي، ج: 3، ص: 56، ط: سعيد)
وفيه ايضاً:
"(وله) أي للولي (إذا كان عصبة) ولو غير محرم كابن عم في الأصح خانية، وخرج ذوو الأرحام والأم والقاضي (الاعتراض في غير الكفء) فيفسخه القاضي ويتجدد بتجدد النكاح (ما لم) يسكت حتى (تلد منه) لئلا يضيع الولد وينبغي إلحاق الحبل الظاهر به."
(كتاب النكاح، باب الولي، ج: 3، ص: 56، ط: سعيد)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"الكفاءة معتبرة في الرجال للنساء للزوم النكاح، كذا في محيط السرخسي ولا تعتبر في جانب النساء للرجال، كذا في البدائع. فإذا تزوجت المرأة رجلا خيرا منها؛ فليس للولي أن يفرق بينهما فإن الولي لا يتعير بأن يكون تحت الرجل من لا يكافئوه، كذا في شرح المبسوط للإمام السرخسي.
الكفاءة تعتبر في أشياء (منها النسب) (ومنها إسلام الآباء) (ومنها الحرية) (ومنها الكفاءة في المال) (ومنها الديانة) (ومنها الحرفة)."
(كتاب النكاح، الباب الخامس في الأکفاء فی النکاح،ج: 1،ص، 290، ط: دار الفكر)
وفيه ايضاً:
"ثم المرأة إذا زوجت نفسها من غير كفء صح النكاح في ظاهر الرواية عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى -، وهو قول أبي يوسف - رحمه الله تعالى - آخراً، وقول محمد - رحمه الله تعالى - آخراً أيضاً، حتى أن قبل التفريق يثبت فيه حكم الطلاق والظهار والإيلاء والتوارث وغير ذلك، ولكن للأولياء حق الاعتراض ... وفي البزازية: ذكر برهان الأئمة أن الفتوى في جواز النكاح بكراً كانت أو ثيباً على قول الإمام الأعظم، وهذا إذا كان لها ولي، فإن لم يكن صح النكاح اتفاقاً، كذا في النهر الفائق. ولايكون التفريق بذلك إلا عند القاضي أما بدون فسخ القاضي فلاينفسخ النكاح بينهما."
(كتاب النكاح، الباب الخامس في الأکفاء فی النکاح،ج: 1،ص، 292، ط: دار الفكر)
بدائع الصنائع میں ہے:
"إنكاح المرأة نفسها من غير رضا الأولياء لا يلزم حتى لو زوجت نفسها من غير كفء من غير رضا الأولياء لا يلزم.وللأولياء حق الاعتراض؛ لأن في الكفاءة حقا للأولياء؛ لأنهم ينتفعون بذلكألا ترى أنهم يتفاخرون بعلو نسب الختن، ويتعيرون بدناءة نسبه، فيتضررون بذلك، فكان لهم أن يدفعوا الضرر عن أنفسهم بالاعتراض."
(كتاب النكاح، فصل بيان ما تعتبر فيه الكفاءة، ج: 2، ص: 317، ط: دار الكتب العلمية)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144601100399
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن