بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیٹے پر باپ کی فوت شدہ نمازوں کا فدیہ شرعا لازم نہیں


سوال

ہمارے  والد کا بیماری میں انتقال ہوا،اور اس دوران ان کی دو مہینوں کی نمازیں قضا ہوگئی   تھیں،اور انہوں نے ان قضا نمازوں کا فدیہ دینے کی کوئی وصیت بھی نہیں کی تھی،کیا ان  نمازوں کا فدیہ دینا شرعاً ہمارے اوپر لازم ہےیا نہیں؟ہماری غربت بہت زیادہ ہے،ہم خود چوکیداری کرتے ہیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر سائل کے والد بیماری کی حالت میں ہوش و حواس میں تھے اوربیٹھ کر یالیٹ کریاسرکے اشارے سے نماز ادا کرنے پر قادر تھےاور اس کے باوجود ان کی نمازیں قضا ہوگئی ہیں اور انہوں نے فدیہ ادا کرنے کی وصیت بھی نہیں کی تو شرعاً ورثاء پران کی نماز اور روزہ کا  فدیہ ادا کرنا لازم نہیں، البتہ اگر ورثاء  از خود باہمی رضامندی سے یاکوئی ایک وارث اپنی جانب سے ان کی فوت شدہ نمازوں کا فدیہ  ادا کردےتو امید ہے کہ مرحوم آخرت کی باز پرس سے بچ جائیں گے۔

واضح رہے کہ فدیہ کی رقم یکمشت ادا کرناضروری نہیں،بلکہ تھوڑا تھوڑا کرکے حسبِ استطاعت بھی ادا کی جا سکتی ہے۔

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"وإذا عجز المريض عن الإيماء بالرأس في ظاهر الرواية يسقط عنه فرض الصلاة ولا يعتبر الإيماء بالعينين والحاجبين ثم إذا خف مرضه هل يلزمه القضاء اختلفوا فيه قال بعضهم: إن زاد عجزه على يوم وليلة لا يلزمه القضاء وإن كان دون ذلك يلزمه كما في الإغماء وهو الأصح، هكذا في فتاوى قاضي خان، والفتوى عليه، كذا في الظهيرية، وإن مات من ذلك المرض لا شيء عليه ولا يلزمه فدية، كذا في المحيط."

(کتاب الصلاۃ،الباب الرابع عشر فی صلاۃ المریض،137/1ط:دارالفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولو مات وعليه صلوات فائتة وأوصى بالكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر) كالفطرة....

وفی الرد:(قوله: وعليه صلوات فائتة إلخ) أي بأن كان يقدر على أدائها ولو بالإيماء، فيلزمه الإيصاء بها وإلا فلا يلزمه وإن قلت، بأن كانت دون ست صلوات، لقوله - عليه الصلاة والسلام - «فإن لم يستطع فالله أحق بقبول العذر منه» وكذا حكم الصوم في رمضان إن أفطر فيه المسافر والمريض وماتا قبل الإقامة والصحة، وتمامه في الإمداد. مطلب في إسقاط الصلاة عن الميت.

(قوله: يعطى) بالبناء للمجهول: أي يعطي عنه وليه: أي من له ولاية التصرف في ماله بوصاية أو وراثة فيلزمه ذلك من الثلث إن أوصى، وإلا فلا يلزم الولي ذلك لأنها عبادة فلا بد فيها من الاختيار، فإذا لم يوص فات الشرط فيسقط في حق أحكام الدنيا للتعذر، بخلاف حق العباد فإن الواجب فيه وصوله إلى مستحقه لا غير، ولهذا لو ظفر به الغريم يأخذه بلا قضاء ولا رضا، ويبرأ من عليه الحق بذلك إمداد.

ثم اعلم أنه إذا أوصى بفدية الصوم يحكم بالجواز قطعا لأنه منصوص عليه. وأما إذا لم يوص فتطوع بها الوارث فقد قال محمد في الزيادات إنه يجزيه إن شاء الله تعالى، فعلق الإجزاء بالمشيئة لعدم النص، وكذا علقه بالمشيئة فيما إذا أوصى بفدية الصلاة لأنهم ألحقوها بالصوم احتياطا لاحتمال كون النص فيه معلولا بالعجز فتشمل العلة الصلاة وإن لم يكن معلولا تكون الفدية برا مبتدأ يصلح ماحيا للسيئات فكان فيها شبهة كما إذا لم يوص بفدية الصوم فلذا جزم محمد بالأول ولم يجزم بالأخيرين، فعلم أنه إذا لم يوص بفدية الصلاة فالشبهة أقوى."

(کتاب الصلاۃ ،باب قضاء الفوائت،72/2ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100017

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں