بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 رمضان 1446ھ 28 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

بھکاری اور ڈاکٹر کے علاج میں کس کو مقدم رکھا جائے گا؟


سوال

میں ایک پرائیویٹ ا سکول میں معلم ہوں، مجھ سے ایک سٹوڈنٹ نے یہ سوال پوچھا ہے کہ اگر ایک جگہ کوئی حادثہ پیش آجائے اور اس میں بیک وقت ایک بھکاری اور ایک ماہر ڈاکٹر زخمی ہوجائیں  اور دونوں کی صورتِ حال یکساں نازک ہو  اور وسائل کے لحاظ سے صرف ایک ہی کا علاج ممکن ہو تو کس کا علاج کرانا مقدم ہوگا؟ ماہر ڈاکٹر کا یا بھکاری کا؟

جواب

واضح رہے کہ  انسانیت کے ناطےہر مصیبت زدہ شخص  کی حسبِ استطاعت مدد کرنی چاہیے، لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر اس نوعیت کا کوئی حادثہ پیش آتا ہے تو انسان کا اخلاقی فرض بنتا ہے کہ حسبِ استطاعت بھکاری اور ڈاکٹر میں سے ہر ایک کے علاج میں اپنا حصہ ڈالے،انسانیت کے ناطے دونوں میں سے کسی ایک کا علاج کرکے دوسرے کو بے یار ومددگار چھوڑنا مناسب نہیں، بلکہ حتی المقدور دونوں کی زندگی بچانے اور دونوں کے علاج و معالجہ کی فکر کرنا ضروری ہے، نیز ملحوظ رہے کہ ایک مسلمان کی شان یہی ہونی چاہیے کہ وہ فرضی سوالات سے احتراز کرے تاکہ اپنا اور دوسرے کا وقت ضائع ہونے سے بچ جائے۔

مسند احمد میں ہے:

"حدثنا إسماعيل، حدثنا سعيد الجريري، عن أبي نضرة، حدثني من سمع خطبة رسول الله صلى الله عليه وسلم في وسط أيام التشريق فقال: " يا أيها الناس، ألا إن ربكم واحد، وإن أباكم واحد، ألا ‌لا ‌فضل ‌لعربي على عجمي (1) ، ولا لعجمي على عربي، ولا أحمر (2) على أسود، ولا أسود على أحمر، إلا بالتقوى أبلغت "، قالوا: بلغ رسول الله، ثم قال: " أي يوم هذا؟ "، قالوا: يوم حرام، ثم قال: " أي شهر هذا؟ "، قالوا: شهر حرام، قال: ثم قال: " أي بلد هذا؟ "، قالوا بلد حرام، قال: " فإن الله قد حرم بينكم دماءكم وأموالكم " ـ قال: ولا أدري قال: أو أعراضكم، أم لا ـ كحرمة يومكم هذا، في شهركم هذا، في بلدكم هذا أبلغت "، قالوا: بلغ رسول الله، قال: " ليبلغ الشاهد الغائب ۔"

(‌‌حديث رجل من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، ج: 38، ص: 474، ط: الرسالة)

مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن المغيرة - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إن الله حرم عليكم عقوق الأمهات، ووأد البنات، ومنع وهات، وكره لكم قيل وقال، وكثرة السؤال، وإضاعة المال."

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا: ماؤں کی نافرمانی، بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے، بخیلی و گدائی اختیار کرنے، زیادہ قیل و قال کرنے، زیادہ سوال کرنے اور مال ضایع کرنے سے۔

"حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے تم پر ماؤں کی نافرمانی اور  بیٹیوں کا قتل اور بخیلی وگدائی اختیار کرنے کو حرام قرار دیا ہے، اور تمہارے لیے ناپسند فرمایاہے زیادہ قیل و قال اور زیادہ سوال کرنے اور مال ضائع کرنے کو"

(كتاب الآداب، باب البر والصلة، ج: 7، ص: 3081، ط: دار الفكر بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144605101072

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں