بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بجلی یا گیس چوری کرنے والے کی شکایت لگانا


سوال

اگر محلے میں کوئی گیس یا بجلی چوری کر رہا ہو تو اس کی شکایت کرنا جائز ہے یا نا جائز؟

جواب

چوری کی بجلی استعمال کرنا شرعاً  ناجائز اور قانوناً جرم ہے، اس لیے کہ حکومت  کی طرف سے قیمتاً جو سہولیات عوام کو فراہم کی جاتی ہیں ان پر معاشرے کا مشترکہ حق ہوتا ہے، اور اس  حق سے خلافِ ضابطہ فائدہ اٹھانا عوامی حق تلفی اور دھوکا دہی کے زمرے میں آنے کی وجہ سے شرعاً ناجائز ہوتا ہے، اور اجتماعی چیز کی چوری کا گناہ بھی فرد کی چوری سے زیادہ ہے،   لہذا  ایسے لوگوں پر اس  عمل  کی وجہ سے  خوب توبہ واستغفار کرنا ضروری ہے اور متعلقہ ادارے تک کسی بھی طرح اس رقم کو واپس کرنا ضروری ہے۔

آپ کے مسائل اور ان کا حل میں مذکور ہے:

"سرکاری ادارے پوری قوم کی ملکیت ہیں، اور ان کی چوری بھی اسی طرح جرم ہے جس طرح کہ کسی ایک فرد کی چوری حرام ہے، بلکہ سرکاری اداروں کی چوری کسی خاص فرد کی چوری سے بھی زیادہ سنگین ہے؛ کیوں کہ ایک فرد سے تو آدمی معاف بھی کراسکتا ہے، لیکن آٹھ کروڑ افراد میں سے کس کس آدمی سے معاف کراتا پھرے گا؟ (186/7)

باقی اگر آپ کے پاس اس کے ثبوت ہیں اور قطعی طور پر آپ کو معلوم ہے کہ  مذکورہ شخص بجلی یا گیس چوری کرتا ہے تو بھی اولاً آپ کو چاہیے کہ اس شخص کو سمجھائیں کہ وہ اس طرح سے غیر قانونی کام کرکے ملک کو نقصان نہ پہنچائے؛ تاکہ وہ بھی سزا سے بچ جائے  اور  رشوت وغیرہ کے گناہ میں بھی ملوث نہ ہو۔

اگر وہ کسی طرح نہ مانے تو متعلقہ حکام کو بتانے کی گنجائش ہوگی، لیکن مقصود اس کی تذلیل یا انتقام وغیرہ نہ ہو۔ اور اگر آپ کو صرف اطلاع ہے، تصدیق نہیں ہے، تو بلاتحقیق کسی پر الزام لگانا جائز نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"غصب دراهم إنسان من کیسه، ثم ردها فیه بلا علمه برئ، وکذا لو سلمه إلیه بجهة أخری کهبة، أو إیداع، أو شراء، وکذا لو أطعمه فأکله خلافاً للشافعي. زیلعي".

(۹/۲۶۷، کتاب الغصب، مطلب في رد المغصوب وفیما لو أبی المالک قبوله)

معجم المصطلحات:

"لأن السرقة في اللغة: أخذ الشيء من الغیر علی سبیل الخفیة والاستسرار بغیر إذن المالک، سواء کان المأخوذ مالاً أو غیر مالٍ … قال اللّٰه تعالیٰ: {اِلاَّ مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ}".

(معجم المصطلحات والألفاظ الفقهیة۲؍۲۶۳)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211200663

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں