بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بجلی کی تاروں میں کلپس لگا کراس کے ذریعے اپنے لیے بجلی لگانے کا حکم


سوال

ہم کاروبار چلانے کے لیے جو بجلی استعمال کرتے ہیں، اس کی ترتیب یہ ہے کہ ہم بجلی کی تاریں کاٹ کراُن میں کلپس لگاتے ہیں،جس کے ذریعے ہم تک بجلی پہنچتی ہے، اس طرح کرنے کی بڑے افسران کی طرف سےاجازت نہیں ہوتی، یہاں تک کہ اگر اُن کو اس بات کاپتہ چل جائے تو وہ پوری بجلی ہی کاٹ دیتے ہیں، البتہ ثانوی درجہ کے افسران کی مدد سے ہم یہ کام کرتے ہیں، نیز جو کلپس ہم لگاتے ہیں وہ بھی عام نہیں ملتے،بلکہ اُن ہی ثانوی درجہ کے افسران کے پاس سے ملتے ہیں، اس بجلی کا چوں کہ بل نہیں آتا، تو جس افسر کے ذریعے ہم یہ کام کرتے ہیں، وہ ماہانہ ہم سے تقریبًا 2000 روپے وصول کرتا ہے، یہ  رقم وہ اپنے لیے وصول کرتا ہے، نہ کہ کمپنی کےلیے، واضح رہے کہ ثانوی درجہ کے افسران نچلے درجہ کے ملازمین کو تنبیہ کرتےہیں کہ اِن لوگوں کو تنگ نہیں کرنا اور ان کی بجلی نہیں کاٹنی، گویااس میں اگر بڑے افسران کا معاملہ دیکھا جائے تو قطعًا اس کی اجازت نہیں، سب کچھ بلا اجازت ہورہا ہے، لیکن ثانوی درجہ کے افسران اس کے معاملہ سے معلوم ہوتاہے کہ کسی نہ کسی درجہ میں ایسا کرنے کی اجازت ہے، اب سوال یہ ہے اس طرح کی بجلی استعمال کرنا جائز ہے یا ناجائز؟ اور اس بجلی کے بدلہ میں ہم جو ثانوی درجہ کے افسران کو 2000 روپے ماہانہ دیتے ہیں، جو وہ اپنے لیے رکھتے ہیں، کمپنی میں نہیں دیتے، تو اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ وہ جائز ہے یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں آپ جوبجلی کی تاریں کاٹ کر اُن میں کلپس لگاکر بجلی استعمال کرتے ہیں، چوں کہ قانوناً اس کی اجازت نہیں ہےاور  ثانوی درجہ کے افسران اس کی اجازت دینے کے مجاز بھی نہیں ہیں، اس لیے یہ اُن کی اجازت کا کوئی اعتبار نہیں ہے، یہ عمل بجلی چوری کرنے کے زمرے میں آتاہے، اس لیے ایسا کرنا جائز نہیں ہے، جو افسران اس معاملے میں آپ کی مدد کرتے ہیں وہ بھی خیانت جیسے سنگین گناہ کے مرتکب ہیں، اور اس کے عوض میں جو  ماہانہ 2000 روپے آپ اُن کو دیتے ہیں یہ رشوت ہے اور رشوت لینا دینا دونوں حرام ہیں،  رشوت لینے اور دینے والے دونوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہنم کی وعید سنائی ہے، اس لیے اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔

السنن الکبرٰی للبیہقی میں ہے:

"عن أبي هريرة ، عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: " ‌من ‌اشترى ‌سرقة وهو يعلم أنها سرقة فقد أشرك في عارها وإثمها."

(‌‌باب كراهية مبايعة من أكثر ماله من الربا أو ثمن المحرم، 547/5، ط: دارالكتب العلمية)

ترجمہ:"جو شخص کسی مسروقہ ( چوری شدہ) چیز کو خریدے حال آں کہ وہ جانتا ہو کہ یہ چیز چوری کی ہے تو وہ عار اور گناہ میں اس چور کے ساتھ شریک ہو گیا۔"

ارشادِ باری تعالٰی ہے:

"إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْخائِنِينَ."(الأنفال: 58)

ترجمہ:"بے شک اللہ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔"

ایک اور جگہ ارشادِ باری تعالٰی ہے:

"إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كانَ خَوَّاناً أَثِيماً."(النساء: 107)

ترجمہ:"یقیناً اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو خیانت کار اور معصیت پیشہ ہو۔"

البحر الرائق میں ہے:

"وفي المصباح الرشوة بكسر الراء ما يعطيه الشخص للحاكم وغيره ‌ليحكم ‌له أو يحمله على ما يريد."

(كتاب القضاء، أخذ القضاء بالرشوة، 285/6، ط: دار الكتاب الإسلامي)

مسند احمد میں ہے:

"عن ثوبان قال: " لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الراشي والمرتشي والرائش " يعني: الذي يمشي بينهما."

(تتمة مسند الأنصار، حديث ثوبان، 85/37، ط: مؤسسة الرسالة)

ترجمہ:"نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نےرشوت لینے والے ،رشوت دینے والے اوررائش یعنی ان دونوں کے درمیان  رشوت کے لین دین میں کوشش کرنے والے پرلعنت فرمائی۔"

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404100312

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں